ڈیم اِٹ.... کالاباغ ڈیم؟

امیر نواز نیازی ۔۔۔
قومی اسمبلی میں فیصل آباد کے ”شیر“ عابد شیر علی نے کالاباغ ڈیم کے حق میں بیان کیا دیا‘ ایسے لگا جیسے انہوں نے مخالفین کی دم پر پیر رکھ دیا ہو۔ لگاتار کالا باغ ڈیم نامنظور اور شیم شیم کے نعرے لگنے لگے اور یوں اسمبلی میں طوفان سا برپا ہو گیا۔ یہ طوفان اگرچہ چائے کی پیالی والا ہی طوفان تھا مگر برپا تو ہوا۔ حق اور مخالفت دونوں طرف سے نعرے لگے‘ تو اسی لہر میں سندھ کی صوبائی اسمبلی نے بھی ایک بار پھر کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کر ڈالی۔ قطع نظر اس کے کہ عابد شیر علی نے کن الفاظ اور کس انداز میں یہ بیان دیا۔ ان کا مطمع نظر یقیناً یہی تھا کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کی بقا کے لئے ناگزیر ہے اسے ضرور ہر صورت تعمیر ہونا چاہئے تو انہوں نے ایسا کچھ بولا تو کون سا کفر تولا ہے کہ اب معذرتیں اور وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں اور جیسا کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ اپنی اس سیاست گری میں بات بات میں ہر مخالف سیاستدان کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے میں عار نہیں سمجھتے۔ اب عابد شیر علی نے ایسا کچھ کہہ دیا ہے تو کون سی نئی بات ہے اور جہاں تک کالاباغ ڈیم کی افادیت کا تعلق ہے اور وہ یہ کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔ تو یہ صرف عابد شیر علی ہی پاکستان کی ایک بڑی اکثریت بھی یہی کہتی ہے بلکہ دنیا بھر کے ماہرین بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی دن بدن روبہ زوال معیشت کی بحالی کے لئے کالاباغ ڈیم ایک بہترین منصوبہ بلکہ نسخہ ہے بالکل اسی طرح جیسے بھوک پیاس سے نڈھال کسی دم بلب مریض کے لئے گلوکوز کی ڈرپ لگنا اور یہاں جو مسلسل ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ وہ پاکستان دشمن عناصر کے زہریلے پروپیگنڈے کے زیر اثر ایسا کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا سرخیل ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو کسی صورت پاکستان کی بھلائی نہیں چاہتا بلکہ پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آپ میں سے جن لوگوں کو بھارت کے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت کالاباغ ڈیم کے خلاف کس قدر منفی پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لئے کس قدر مفید ہو سکتا ہے جو بھارت کی ناک کا یوں بال بنا ہوا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہاں یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ دماغ سے کم سوچتے ہیں دوسروں کی سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم بن جائے تو سب سے زیادہ فائدہ سندھ کو ہو گا جہاں سے سب سے زیادہ مخالفت ہو رہی ہے۔ سندھ کو یہ اعتراض یا خوف ہے کہ یہ ڈیم بن گیا تو پنجاب والے دریائے سندھ کے پانی پر قابض ہو جائیں گے اور اس سے اپنے لئے نئی نہریں نکال لیں گے تو ان کے اس ”خوف“ کو دور کرنے کے لئے اب اس منصوبے کا ڈیزائن اس طرح بدل دیا گیا ہے کہ یہ ایک (carry over) کیری اوور ڈیم ہو گا یعنی جو بھی پانی یہاں جمع ہو گا‘ ویسے کا ویسا آگے چلا جائے گا لیکن اس سے یہاں اتنی بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ جس سے ملک میں بجلی کی کمی پورے ہو سکے گی۔ ملک بھر میں صنعتوں کا پہیہ بھی تیز تر رفتار سے آگے سے آگے بڑھنا شروع جائے گا اور اس ڈیم میں جو اضافی پانی جمع ہو گا۔ اس سے موجودہ نہروں میں پانی کی کمی خصوصاً سندھ کی نہروں کی کمی کو پورا کیا سکے گا اور جہاں تک صوبہ خیبر کے اعتراض کا تعلق ہے کہ کالاباغ ڈیم بننے سے ”ان کا صوبہ پانی میں“ ڈوب جائے گا تو اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے ڈیزائن میں ڈیم کی اونچائی اس قدر کم کر دی گئی ہے کہ وہاں کسی طور بھی کسی سیلاب کا دور دور تک شائبہ تک نہیں رہا۔ اس فیلڈ کے شہرہ آفاق انجینئر‘ شمس الملک‘ جن کا تعلق اسی صوبے سے ہے وہ بھی بارہا اس کی تصدیق کر چکے ہیں بلکہ اس کی تائید میں وہ نوشہرہ میں اپنا گھر بھی دریائے کابل کے کنارے بنا چکے ہیں تو ایسے میں ظاہر ہے کہ کالاباغ ڈیم کوئی فنی مسئلہ نہیں فقط سیاسی مسئلہ ہے جسے ہمارے سیاستدانوں نے اپنی ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اس قدر گھمبیر بنا دیا ہے کہ اب حکومت بھی اس کا نام تک لینے سے گریز کرتی ہے تو ہمارے نزدیک یہ کالا باغ ڈیم کے حق اور مخالفت میں میڈیا کی جنگ ہے جس میں لگتا ہے مخالف عناصر دشمنوں کی مدد سے حاوی ہو چکے ہیں اور ہمارا قومی میڈیا اس شکست کو تسلیم کر چکا ہے کہ وہ منقار زیر پر لئے خاموشی اختیار کر چکا ہے۔ وہ اب بھی اس کا ادراک کرے اور دشمن میڈیا کے سامنے ڈٹ جائے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ملک میں بدگماں اور گمراہ عناصر کو جلد حقیقت کی راہ پر لا سکتا ہے اور ڈیم بنانے کا امکان حقیقت میں بدل سکتا ہے ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہی رہے گی۔

ای پیپر دی نیشن