ملک وقوم کو درپےش چےلنجز سے نبردآزما ہونے کے لےے ہوم ورک بہت ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کے سکول ہوم ورک سے لے کر سےاسی فےصلہ سازی تک ہوم ورک کی اہمےت اورضرورت سے انکار نہےںکےاجاسکتا۔ برس ہا برس سے اُلجھے ہوئے معاملات اوربگڑے ہوئے حالات کو چند روز مےں درست نہےں کےا جا سکتا۔ اس کے لےے حُسنِ عمل اوربڑے تدبر سے کام لےنا ہوگا۔
سکول ہوم ورک نامکمل ہونے کی صورت مےںبچوں کو اپنے ٹےچرز سے ڈا نٹ کھانی پڑتی ہے۔ بلکہ سرکاری سکولو ں مےں توڈانٹ کے بجائے نوبت مار کھانے تک پہنچ جاےا کرتی تھی۔ حکومتی امور مےں فےصلہ سازی کرتے ہوئے اگر ہوم ورک مکمل نہ ہوگا تو معصوم اورقےمتی جانوں کے ضائع کی صورت مےںنقصان کا سامنا ہمےشہ عوام کوکرنا پڑتا ہے اور اس سے حکومتی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھتے ہےں۔ جےسا کہ بلوچستان مےں سرداربہادر خان وےمن ےونےورسٹی مےںرےموٹ کنٹرول بم دھماکہ کےا گےا اورجب زخمےوں کو بولان مےڈےکل کمپلےکس پہنچاےاگےا تو وہا ں دستی بم پھےنکا گےا اس کے علاوہ خودکش دھماکے اور فائرنگ کی گئی جس کے نتےجے مےںکوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور ،ڈاکٹر شبےرمگسی، 4نرسوں، 12طالبات، سکےورٹی کے 4 افراد سمےت 32افراد شہےد کردئےے گئے۔ بتاےاگےاہے کہ ےونےورسٹی بس مےں دھماکہ اُس وقت ہوا جب طالبات چھٹی کے وقت اپنے گھروں کو واپسی کے لےے بس مےں سوار ہورہی تھےں۔ دہشت گردی کی اس مذموم واردات مےں زخمی ہونے والوں مےں تقرےباََ 22 طالبات بھی شامل ہےں۔ جن طالبات نے دکھی انسانےت کا مسےحا بننے کے سپنے اپنی آنکھو ں مےں سجا رکھے تھے اُن سے صرف سپنے ہی نہےں بلکہ زندگی بھی چھےن لی گئی۔ اب ہمےں قےمتی جانوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سپنوں کی حفاظت بھی کرنا ہوگی۔ خوابوں کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچانا ہوگا۔ ےہ بڑا نازک کام ہے۔ اس کے لےے مکمل ہوم ورک کے ساتھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مصلحت پسندی کی پالےسی کو ترق کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کی اشد ضرورت اس لےے بھی ہے کہ حالےہ دہشت گردی کی واردات مےں بانی¿ پاکستان کی رہائش گاہ کو تباہ کرنا اور پھر وہاں بی اےل اے کا جھنڈا لہرانا حکومتی رٹ کو تسلےم نہ کرنے کا واضح پےغام ہے۔بابائے قوم کی رہائش گاہ تو دو چار مہےنے مےں دوبارہ تعمےر کر دی جائے گی لےکن جو نہاےت قےمتی نوادرات اس حملے مےں تباہ ہو گئی ہےں ان کا نعم البدل کہےں سے تلاش نہےں کےا جاسکتا۔
محترم چےف جسٹس نے بھی پنجاب جوڈےشل اکےڈمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلےہ نے اپنی آئےنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے متعدد بار از خود نوٹس لےا مگر اس کے ہاتھ مےں بندوق نہےں ہوتی۔ نئی حکومت کو شہرےوں کے تحفظ کو ےقےنی بنانے کی ذمہ دارےاں پوری کرے۔
ہمارے وزےرِداخلہ چودھری نثار فرما رہے ہےں کہ دہشت گردوں سے اُن کی زبان مےں بات کی جائے گی۔ ہمارے خےال مےں اب وزےرِ داخلہ پر اصل صورتحال واضح ہو چکی ہو گی کہ لاتوں کے بھوتوں سے کےسے نپٹا جانا چاہےے۔ چودھری صاحب تجربہ کار سےاست دان ہےں اور نوازشرےف کے قابلِ اعتماد ساتھےوں مےں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ سکےورٹی معاملات اورانتظامی ڈھانچے سے کافی حد تک آگاہی رکھتے ہےں ۔ نوازشرےف نے اُن کی صلاحےتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اُنھےں بڑی اہم ذمہ داری سونپی ہے تو اب انھےں اس اعتماد پر پورا اُتر کے دکھانا پڑے گا۔ چودھری نثار نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران جو سوال اُٹھاےا ہے کہ بلوچستان مےںسکےورٹی اداروں کو جتنا کنٹرول حاصل ہے کسی اور جگہ پر اتنا نہےں ہے۔ ہر جگہ چےک پوسٹےں لگی ہوئی ہےںاس کے باوجود کوئٹہ کے شہری کےوں باربار دہشت گردی کی کاروائےوں کا نشانہ بن جاتے ہےں۔ بقول چودھری صاحب کے کہ بلو چستان مےں اےسے اےسے لوگوں کو بھی سکےورٹی فراہم کی گئی ہے جن کی طرف کوئی دےکھنا بھی گوارانہےں کرتا۔ اس کے باوجود خاص طور پر کوئٹہ کے حوالے سے سکےورٹی اداروں کی کارگردگی سوالےہ نشان بن کے رہ گئی ہے۔ لےکن اس سوال کا جواب نئے وزےرِ داخلہ کو خود ہی تلاش کرناہوگا۔ کےونکہ اُنھےں ےہ منصب سنبھالے زےادہ دن نہےں ہوئے اس لےے کہا جا سکتاہے کہ انھےں ہوم ورک مکمل کرنے کا وقت نہےں مل سکا۔ مگر ہم جانتے ہےں کہ دوسرے بہت سے ممالک مےں مختلف سےاسی پارٹےوں کے اپنے اپنے تھنک ٹےنک ہوتے ہےں، پارٹی چاہے حکومت مےں ہو ےا نہ ہو، اُن کے بنائے ہوئے تھنک ٹےنک اپنا کام کرتے رہتے ہےں۔ اس لےے بھی وہاں کسی بھی پارٹی کو حکومت سنبھالتے ہی زےادہ مشکلات کا سامنا نہےں کرنا پڑتا۔ کےونکہ ان کے تھنک ٹےنک اپنا ہوم ورک مکمل کر چکے ہوتے ہےں۔
موجودہ صورتحال مےں پہلی بار بہت سی باتےں کھل کر سامنے آرہی ہےں ۔ قومی اسمبلی مےں تقرےر کرتے ہوئے محمود خاں اچکزئی نے کہا کہ پاکستان مشکل صورتحال مےں ہے۔ اتنے فوجی تو بھارت کے ساتھ جنگ مےں نہےں مرے جتنے اب شہےد ہوچکے ہےں۔ اےجنسےاں گدلے پانی مےں سوئی ڈھونڈنے کی صلاحےت رکھتی ہےں پھر وہ کےوں ناکام ہےں۔ ہمےں ہر اس گروہ کے خلاف لڑنا ہوگا جو قتلِ عام مےں ملوث ہے۔ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا کہ آخر امرےکہ ڈرون حملے کےوں کرتا ہے؟“
جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے مےں اےسی کوئی خفےہ بات رہی نہےں جس کو ظاہر کےا جانا ابھی باقی ہو۔ ڈرون حملوں کے پسِ منظر کو سمجھنے مےں اچکزئی صاحب کو کوئی مشکل نہےں ہوگی اگر وہ ان حملوں کو اس تناظر مےں دےکھےں گے کہ جب نئی حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی بات کی تو امرےکہ کی طرف سے فوراََ ڈرون حملے کر کے قےائم امن کی اس کوشش کو نقصان پہنچاےا جاتا ہے ، تو دوسری جانب قطر مےں طالبان کا رابطہ دفتر منظرِ عام پر آچکا ہے ، امرےکہ ،طالبان اورکرزئی ۔مذاکرات پر آمادہ ہو چکے ہےں۔ اور اس عمل مےں پاکستان کا کہےں ذکر تک نہےں ہو رہا۔ اس کے بعد تو ہمےں سمجھ آجانی چاہےے کہ عالمی طاقتےں ہمارے ساتھ کیسی گےم چلارہی ہےں۔ اور ہماری موجودہ پوزےشن ےہ ہے کہ ہمارا ہوم ورک مکمل نہےں ہے اس کا اندازہ دہشت گردی کی نئی لہر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ جب طالبات کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بناےا جاتا ہے تو سارے بلوچ چاہے وہ انتہا پسند ہوں ےا اعتدال پسند سب ہی کہتے ہےں کہ ”بلوچ ،عورتوں کو نشانہ بنانے جےسا بزدلانہ کام نہےں کرتے“۔ ہمارے خےال مےں بلوچستان مےں دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز اس لےے کےا گےا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اور ڈاکٹر عبدالمالک اپنے طرزِعمل سے عوام مےں پائی جانے والی نااُمےدی اورماےوسی کا خاتمہ کر رہے تھے۔ جبکہ دہشت گرد تو لوگوں کی ماےوسی سے ہی طاقت حاصل کرتے ہےں۔ اگر عوام پُر اُمےد ہوں گے تو دہشت گردی کا جواز ہی باقی نہےں رہے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک جب اختر مےنگل سے ملاقات کر رہے تھے تو بلوچستان مےں خوشگوار سےاسی ماحول کی راہ ہموار ہو رہی تھی جو دہشت گردوں کو اےک آنکھ نہےں بھاتی اسی لےے انھوں نے دہشت گردی کی حالےہ کاروائی سے نئی حکومت کے لےے مشکلات مےں اضافہ کر دےا ہے۔
اس سلسلے مےں وزےراعظم نے بجا طور پر کہا ہے کہ جو قومیں ، مقامی دہشت گردوں کو فنڈنگ کرتی ہےں اس سلسلے کو سختی سے روکا جائے گا۔ اگر اےسا ممکن ہو سکا تو اس سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ گمشدہ افراد کی بازےابی کے مسئلے کو بھی جلد از جلد حال کےا جانا چاہےے۔ اس سے بلوچی عوام کا اعتماد بحال کرنے مےں بڑی مدد ملے گی۔
نئے وزےر داخلہ نے رےنجرز اور اےف سی کو اہم شخصےات کی سکےورٹی سے ہٹانے کا فےصلہ کےا ہے۔ اُنھوں نے مزید فرماےا کہ قوم غےر محفوظ ہے اور فورسز کروڑپتی افراد کی حفاظت مےں مصروف ہےں۔ ہم فورسز کو چوکےدار بنا کر ان کی طاقت ضائع نہےں کرنا چاہتے۔ اس عمل کا آغاز انھوں نے خود سے کر کے اےک اچھی رواےت قائم کی ہے۔ ویل ڈن۔