نئی کابینہ کے حلف اٹھانے کے پانچ دن کے بعد نئے بجٹ کا اعلا ن کر دیا گیا ۔ پچھلی حکومت کی نہایت ناقص کارکردگی اور مالیابی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ GDP جو 2011-12 میں قومی آمدنی کا 4.4فیصد تھی ۔ 2012-13 میں کم ہو کر 3.6فیصد رہ گئی ۔ مالی خسارہ 5.2فی صد کی بجائے تقریباً 8.8فیصد ہونے کے قریب ہے۔ ملکی قرضے 14.5ٹرلین کے قریب اور زرمبادلہ کے ذخائر میں 4.6بلین کی کمی ریکارڈ کی گئی جو کہ 10.8بلین سے کم ہو کر صرف 6.2بلین رہ گئے۔ یہ تمام مسائل نئی حکومت کو ورثے میں ملے ہیں۔
موجودہ حکومت نے قوی اسمبلی میں 3.5ٹرلین روپے کا بجٹ پیش کیا جس کے اہم نکات میں GDP کو 4.4فیصد پر لانا، افراد زر کو 8فیصد تک کرنا۔ حکومتی آمدنی کے حوالے سے ٹیکس GDPکے تناسب کو 9.9فیصد سے 10.6کی حد تک کرنا، FBR ٹیکسوںکی مد میں 8.8فیصد کو بڑھا کر 9.5فی تک لے آنا ، موجودہ اخراجات کی حد کو GDPکے حوالے سے 16.5فیصد سے کم کر کے 15.2فیصد پر لایا جانا۔ ترقیاتی فنڈز کو 4.2فیصد سے بڑھا کر 5.1فی صد کیا جائیگا اور مالیاتی خسارے کو 8.8فی صد سے کم کر کے GDP کا 6.3فی صد کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے GDP کی شرح پیداوار کو مالی سال 2015-16 تک 7فی صد تک بڑھائے جانے کا عندیہ دیا ہے ۔ امید کی گئی ہے کہ آئندہ افراط زر 8فی صد سے بڑھنے نہیں دیا جائیگا جبکہ ملک میں سرمایہ کاری GDPکے حوالے سے 20فیصد تک پہنچ جائیگی۔ علاوہ ازیں موجودہ حکومتی اخراجات کو 12.9فی صد کی حد تک لانے کی حد مقرر کی گئی ہے۔ مزید برآں زر مبادلہ کے ذخائر کو 20بلین ڈالر تک لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ نیز اگلے تین سالوں میں پیداواری ترقی کا ہدف 7فیصد مقرر کیا گیا ہے جو کہ موجودہ حالات میں پورا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ کولیشن سپورٹ فنڈ CSF) )کے 112بلین اور 3-Gلائنسنسوں 3.6 لائن لاسز کی مد میں 120 ملین روپے کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس بجٹ میں 115بلین روپے ایک نئی مد New Development Initiative کیلئے رکھے گئے ہیں۔ اس رقم سے خرچ حکومتی صوابدید پر ہوگا جس سے پیسے کے غلط استعمال کے امکانات کو خارج ازامکان نہیں دیا جاسکتا ۔ نیز اس وقت حکومت کو سخت مالیاتی دشواریوں کا سامنا ہے اور نئے منصوبوں کو شروع کرنے سے گریز بہتر ہوگا۔ جہاں تک ٹیکس کی وصولی کا تعلق ہے تو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں پر نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ 2013-14 کیلئے FBRکا حدف 2475بلین روپے ہے جس کیلئے پیداوار میں 23فیصد اضافہ لازمی ہوگا لیکن ہمارے ملک میں ٹیکس کی ادائیگی میں بے حد مشکلات اور دشواریوں کا سامنا لازمی ہے اور 230 بلین کے ٹارگیٹ کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے۔ اس بجٹ میں سیل ٹیکس میں ایک فیصد اضافے (16 فی صد سے 17فی صد) کیے جانے سے کم آمدنی والے افراد کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے تمام اشیاءکی قیمتیں بڑھ جانا لازمی ہے نئے بجٹ میں trade deficit کو کم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔ مزید برآں subsides یعنی قیمتوں میں رعایت میں 35 فیصد کمی کا اثر بجلی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ہوگا اور اس سے عوام کو مزید مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ اس سے افراد زر میں کافی اضافے کا امکان ہے ۔ نیا بجٹ گو کافی خوش کن مگر Optimisticہے کیونکہ اسکی کامیابی کیلئے یہ توقع کی گئی ہے کہ بطور قوم ہم سب ایمانداری سے پورا پورا ٹیکس ادا کرنا شروع کر دینگے۔ ملک میں بدعنوانی اور رشوت ستانی یکلخت ختم ہو جائیگی۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ وزیر خزانہ نے ملک کو درپیش مشکلات کا گہرائی میں جائزہ نہیں لیا۔ جن میں توانائی کی شدید کمی، دہشت گردی ، امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت، عوامی سطح پر بچت سے گریز، اندرون ملک اور بیرونی قرضوں کا بوجھ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی سرفہرست ہیں۔ دراصل ملک کو درپیش مسائل کا کوئی آسان اور قلیل المیعاد حل موجود نہیں ‘امید ہے کہ موجوددہ حکومت آئندہ چند سالوں میں ان تمام مشکلات پر قابو پالے گی اور ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں میں کامیاب ہوجائیگی ۔