شیخِ حرم سے شریکِ جرم

Jun 23, 2014

فضل حسین اعوان

اِدھر 8 لا شیں پڑی تھیں اُدھررانا ثناء اللہ کہہ رہے تھے’’ شہر میں کسی کو نو گو ایریا بنانے کی اجازت نہیں دینگے۔‘‘ یہ بھی کہا’’ سیکرٹریٹ سے اسلحہ برآمد کرنے کیلئے اپریشن کیا گیا‘ جہاں پیری مریدی ہو رہی تھی لوگوں سے جبری حلف لیا جا رہا تھا۔‘‘ اس سب کا کیا یہ مطلب ہے کہ سو سے زائد لوگوں کو خون میں نہلا دیا جائے؟ اس میں تو دو رائے نہیں رہیں کہ جو کچھ بھی ہوا بظاہر اسکے پیچھے رانا ثناء اللہ تھے، رانا ثناء اللہ کے پیچھے کون تھا؟ انہوں نے مزید فرمایا تھا کہ طاہرالقادری کے استقبال کیلئے لوگوں کو اکٹھے نہیں ہونے دینگے۔اس پر اب عمل ہورہا ہے ،اسلام آباد میں کنٹینر بکھیر دیے گئے ہیں۔ ماڈل ٹائون بربریت پر شہباز شریف نے موقع کی مناسبت سے پریس کانفرنس کرکے 12 گھنٹے تک اپریشن کے مناظر ملاحظہ فرمانے کے باوجود خاموشی اختیار کئے رکھنے کا مداوا کرنے کی کوشش کی لیکن رانا ثناء اللہ خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید مسلسل اپنے تند و تیز بیانات سے جلتی پر تیل کا کام کرتے رہے۔ شہباز شریف ایک طرف رنجیدہ نظر آئے دوسری طرف حکومتی اقدامات جارحیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پولیس نے عوامی تحریک کے تین ہزار عہدیداروں اور کارکنوں پر دہشت گردی کی ایف آئی آر درج کر لی۔ جن لوگوں کی کل ضمانت ہوئی ان میں سے کسی کی ٹانگ، کسی کا بازو اورکسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔ سنگدلی کا نشانہ بننے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات اور گلو بٹ پر محض توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کرکے اسے رعایت دے دی۔ ایسے اقدامات سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا۔حامد میر زخمی ہوئے تو فوراً مطالبہ سامنے آ گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ 13 افراد بربریت میں جان سے گئے کسی نے نہیں کہا کہ اسکے ذمہ دار کمیشن کی رپورٹ آنے تک اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں۔ مشیروں کے احمقانہ مشوروں پر نوبت یہاں تک آ گئی کہ سانحہ کے چوتھے روز پیپلز پارٹی، ق لیگ، متحدہ، تحریک انصاف نے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ لگتا ہے حکومت آخری لمحے تک طاہرالقادری کو پاکستان آنے سے روکنے کیلئے ہر ممکنہ حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کریگی جو اسکے مفاد میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ محمد خان جونیجو نے 1986ء میں بہترین سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے اور لوگوں کو انکے استقبال کی اجازت دی تھی۔ آج کے حکمرانوں کے اندر کا خوف ان کو طاہرالقادری سے ڈرا رہا ہے اور جو ہاکس اپوزیشن کے بارے میں زہریلی زبان استعمال کر رہے اور جن کے مشورے پر شریف برادران طاہرالقادری کو سبق سکھانا چاہتے ہیں وہ ان کیخلاف وقت آنے پر سلطانی گواہ بن جائیں گے۔ وعدہ معاف گواہ شریکِ جرم ہی بنتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ اور اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ سے استعفیٰ لے لیا۔ اب مزید استعفے آ سکتے ہیں۔ رانا صاحب سے استعفیٰ لینا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کیلئے اپنی اوقات میں رہنے کا سبق اور پیغام ہے۔ طاہرالقادری آج ممکنہ طور پر پاکستان آرہے ہیں ، انکی آمد سے کچھ بھی نہیں ہوگا، حکمرانوں کیلئے انکے کاسہ لیسوں نے قادری کو ہوّا بنا دیا ہے۔ حکمرانی کیلئے وسیع وژن کے ساتھ وسیع قلب بھی ہونا چاہئے۔ گلو بٹوں کے ذریعے حکمرانی نہیں بدمعاشی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو گلوستان بنا دیا گیا ہے۔ آج کا گلو کل رانا ثناء اللہ بن جاتا ہے۔ گلو بٹ سیاست اور عداوت کے پیڑ سے کچا ٹوٹ گیا۔ پک کر اس نے پارلیمنٹرین، وزیر اور گورنر بننا تھا۔ کچہری میں جب گلو کی درگت بن رہی تھی تو اس کے پشت پناہ گنگنا رہے ہوں گے تم کتنے گلو مارو گے ہرحلقے سے گلو نکلے گا۔ ہماری سیاست کا عجب چلن ہے۔ سیاستدان اپنے قائد کا رویہ اور رجحان دیکھ کر اپنی ذات اور اوقات کے مطابق مشورے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا طاہر القادری کو پاکستان نہیں آنے دینا، آئے تو اس کا شو کامیاب نہ ہو۔ اس کے بعد جانثاروں کے مشوروں  کی برسات اور زبان سے انگارے برسنے لگے ۔قادری ان سے بڑھ کر سنگ باری کرتے رہے۔ سلیم بٹ نے فون پر چند واقعات شیئر کیے ہیں۔ اغلباً محمود غزنوی اپنے لائو لشکر کے ساتھ گزر رہا تھا۔ ایک درویش نے صدا لگائی جو مجھے آٹھ دن روٹی کھلائے ،اس کی حضرت خضرسے ملاقات کرادوں گا۔ بادشاہ نے سُنا اور اس کی پیشکش قبول کر لی۔ آٹھ دن بعد دربار میں بلایا تو فقیر نے کہا میں ملاقات کرانے جوگا ہوتا توکیا روٹی مانگ کے کھاتا!۔ بادشاہ سلامت طیش میں آ گئے۔ بادشاہ کا موڈ دیکھ کے ایک درباری نے مشورہ دیا کہ اس کی چمڑی اترواکر جوتے سلوا دئیے جائیں۔ دوسرے نے کہا کوہلو میں پیل کے تیل نکال کر چراغ جلائے جائیں۔ تیسرے سے پوچھا تو اس نے کہا جناب بادشاہ کے دربار سے ہزاروں لوگ کھاتے ہیں، آٹھ دن درویش نے بھی کھا لیا تو کیا ہو گیا، اسے جانے دیں۔ فقیر سے پوچھا کہ تو کیا کہتا ہے۔ اُس نے کہا جناب پہلا درباری موچی، دوسرا تیلی، تیسرا خاندانی ہے۔ ان کے مشورے اپنی اپنی اوقات اور ذات کے مطابق ہیں ۔ شریف زادگان تیسری قسم کے درباریوںکو تلاش کریں۔ راج کپور نے اپنے باپ معروف اداکار پھرتھوی راج کپور سے بڑے زعم میںپوچھا ’’پاپا میں بڑا اداکار ہوں یا دلیپ کمار‘‘ تو پرتھوی راج کپور نے کہا دلیپ کمار اداکار ہے اور تم اداکار کے بیٹے ہو۔ شریف زادگان سیاستدانوں کے بیٹوں سے نہیں سیاستدانوں سے مشورے کریں۔ بھٹو کو ایوب خان نے کابینہ سے الگ کیا توایک وزیر احمد سعیدکرمانی نے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کیلئے بھٹو کی مٹی پلید کرنے کی کوشش کی۔ ایک دن صحافیوں نے بھٹو صاحب سے پوچھا کرمانی صاحب آپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں وہ کہتے ہیں تو بھٹو نے کہا Who is She ۔ اس کے بعد کرمانی کی حیثیت اور سیاست ختم ہو گئی۔کبڈی کا کھلاڑی زور لگانے کے بجائے موقع پاتے ہی معمولی سے دھکے سے مخالف کو لکیر کے باہر کر دیتا ہے۔ آپ طاہر القادری کی آمد پر انہیں گلدستہ پیش کریں، جہاں وہ جانا چاہتے ہیں جانے دیں۔ دھرنا دینا یا جلسہ کرنا ہے تو وہاں سکیورٹی کا بندوبست کرنے کے ساتھ سبیلیں لگا دیں۔ وہ مال روڈ، ماڈل ٹائون اور جاتی عمرا کو اٹھا کر نہیں لے جائیں گے لیکن ان حکمرانوںکو مشورہ کون دے، ان کو کون سمجھائے۔ یہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں نہ کاسہ لیسوں کے سوا کسی کی سُنتے ہیں۔جب آپ تاریخ سے سبق نہیں سیکھیں گے تو تاریخ خود کو کیوں نہیں دہرائے گی؟ شہباز شریف نے شیخ رشید کو شیخِ حرم کا لقب دیا ہے۔ عام آدمی طاہرالقادری کو شیخ الاسلام اورشیخِ حرم سمجھتا ہے کوئی دل سے اور کوئی مذاق میں،ان کو آنے دیں، احترام دیں۔ ان سے سیاسی انداز سے نمٹیں۔پکڑ دھکڑ اور دھینگا مشتی کے بجائے ایک حکمت کے تحت لکیر سے باہر کریں۔ (ختم شد)

مزیدخبریں