برصغیر پاک و ہند پر انگریز کی حکمرانی اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اہل ہندوستان کی آزادی کی تحریک ابھی ابتدائی مراحل پر ہی تھی۔ کہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں اپنے اندھے اقتدار اور طاقت کے زعم میں ایک انگریز حاکم جنرل ڈائر نے گولیوں کی برسات کروا دی اور سینکڑوں معصوم اور نہتے لوگوں کو ناحق موت کی نیند سلا دیا تو یہاں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس کی اس فرعونیت نے آزادی کے جن اور جنون کو بھی بحربیکراں کی طرح جگا دیا جس کے نتیجے میں آخر کار ہندوستان آزاد ہوا اور اس کے ساتھ ہی مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی۔ انگریز کی اس بربریت کا یہ واقعہ برصغیر کے لوگ ابھی تک نہیں بھول پائے۔ تو خود انگریز بھی اپنے اس کئے پر آج بھی شرمندہ ہیں۔اور وہ جو کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو شاید ایسا ہی ہو گا۔ کہ اب کے تاریخ نے ہمارے ہاں سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کی صورت میں دہرایا ہے جس میں معصوم اور نہتے لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں اور ان کی زد میں آ کر درجنوں لوگ جان سے گئے تو بہت سے افراد زخموں سے چور ہو کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ان میں بڑی تعداد میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں تو گویا یہ جنرل ڈائر کے اس ایکشن کا ری پلے تھا لیکن یہاں فرق یہ ہوا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کا جنرل ڈائر پردے میں رہا ہے اور ابھی تک منظر سے روپوش ہے اور ابھی کوئی جان نہیں پا رہا کہ ایسا کس کے حکم پر ہوا ۔یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واقعی اگر اس اندوہناک سانحہ کے ذمہ دار حکومت یا حکمران ہیں تو وہ کتنے نادان ہیں یا ہو سکتے ہیں کہ اس وقت جب ملک بھر میں دہشت گردی کا عذاب اپنے شباب پر ہے اور پاکستان کی مسلح افواج نے اس کا قلع قمع کرنے کے لئے شمالی وزیرستان میں بھرپور آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں پوری قوم کی یکسوئی اور یکجہتی درکار ہے حکومت کیونکر، ڈاکٹر طاہر القادری اور اس کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے خلاف اس قدر بہیمانہ انداز میں اپنا محاذ کھول سکتی ہے اس وقت بدلتے حالات میں جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی یہ مہم جوئی بذات خود صلح جوئی کی طرف مائل نظر آ رہی تھی اور اب جب ایسا جو ہو گیا ہے تو اس سے نقصان کس کا ہوا ہے۔ اور کون فائدے میں رہا یہ تو صاف ظاہر ہے۔ کہ اس میں جانی نقصان تو عوامی تحریک کا ہی ہوا ہے جو ان کے قریب ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن سیاسی طور پر اس کا ناقابل برداشت نقصان حکومت وقت کو ہوا ہے جس سے اس کی بنیادیں تک ہلتی نظر آ رہی ہے۔ تو کیا وہ اس قدر کوتاہ اندیش تھی واقع ہوئی ہے کہ اس کو پیشگی Visulize ہی نہیں کر سکی۔ اور یہ مان بھی لیا جائے کہ نواز شریف یا شہباز شریف اس قدر نا سمجھ نہیں کہ وہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی دے ماریں۔ اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کیا ڈاکٹر طاہر القادری کو اس سانحہ کا خطاکار یا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے مخالفین کی رائے کے مطابق وہ ایسی کوئی خواہش تو رکھ سکتے ہیں لیکن اتنے خوفناک سانحہ کے مرتکب نہیں ہو سکتے کہ اس سے پہلے ملک ان کی تحریک اور احتجاج ہمیشہ پر امن رہا ہے ۔ چنانچہ اس سانحہ کے ذمہ دار اگر طاہر القادری اور ان کی جماعت بھی نہیں تو لامحالہ تشویش اور تفتیش کا رخ ان طاقتوں کی طرف بھی مڑ سکتا ہے جنہیں ہم خفیہ ہاتھوں سے موسوم کرتے ہیں۔ وہ خفیہ ہاتھ جو کسی طور پر پاکستان کی بھلائی نہیں چاہتے بلکہ اس کے وجود کے درپے ہیں اس صورت حال کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں اب جب کہ اس سارے واقعہ کی چھان بین اور انکوائری کے لئے ایک عدالتی کمیشن مقرر کر دیا ہے یا کوئی اور کمیشن بنا دیا جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ واضح طور پر یہ نشان دہی کر دے کہ اس خونی ڈرامے کا جنرل ڈائر کون تھا یا ہے۔ اور پھر اس جنرل ڈائر کو خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور ہو بلا جھجک اس کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ آخر میں جناب ڈاکٹر طاہر القادری سے کہ وہ جو اپنے طور پاکستان کا امام خمینی بننا چاہتے ہیں یا بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اس سلسلہ میں گزارش کرتے ہیں ۔…؎
ایں سعادت بزور بازو نسیت
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ