ڈاکٹر عامر عزیز نے گھرکی ہسپتال میں پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید ترین سپائن سنٹر بنایا ہے جہاں غریبوں کا علاج بالکل مفت ہوتا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں صرف وزیروں شذیروں امیر کبیروں اور سارے بارسوخ حکومتی بے ضمیروں کا علاج مفت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عامر عزیز کو امریکی پکڑ کے لئے گئے تھے۔ وہ دو ماہ بعد رہا ہو کے آئے تو مجاہد صحافت مجید نظامی کی خدمت میں برادرم توفیق بٹ لے کے انہیں حاضر ہوئے۔ اپنی آزادی کی صحیح کیفیت انہیں آزادی اظہار کے سب سے بڑے مجاہد اور نظریہ پاکستان کے پاسبان کے پاس جا کے محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسامہ بن لادن کا علاج بھی کیا تھا۔ وہ قندھار میں ان کی سادگی اور آسودگی سے بہت متاثر ہوئے۔ اتنا بڑا آدمی اتنا مہمان نواز اور فقیرانہ لائف سٹائل دیکھ کر ڈاکٹر عامر عزیز آب دیدہ ہو گئے۔ مجھے یاد ہے کہ رات گئے مجھے ڈاکٹر عامر عزیز کا فون آیا کہ اب مجھے امریکن اور خفیہ ایجنسیوں والے گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور میں آخری فون آپ کو اور توفیق بٹ کو کر رہا ہوں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں بے وسیلہ آدمی ہوں مگر آپ کی اس بات کی میں اپنی جان پر کھیل کر بھی لاج رکھوں گا۔ ڈاکٹر عامر عزیز کی رہائی کی خوشی میں ادارہ ہم سخن ساتھی کے زیراہتمام ایک بڑی تقریب میں مجید نظامی نواب زادہ نصراللہ، رفیق تارڑ، تہمینہ دولتانہ، خواجہ سعد رفیق کے علاوہ ڈاکٹر عامر عزیز کی والدہ نے شرکت کی اور بہت ولولہ انگیز گفتگو کی۔
ڈاکٹر عامر عزیز نے دوستوں اور مخیر حضرات کو بلا رکھا تھا۔ خواتین بھی تھیں کہ وہ بھی مخیر ہوتی ہیں۔ وہاں عطیات کے اعلانات میں مردوں سے وہ آگے بڑھ گئیں۔ اعلانات میں دیر ہونے لگی تو میں نے بٹ صاحب سے کہا کہ میری طرف سے ایک ہی بار پچاس کروڑ کا اعلان کرو اور کھانا لگواﺅ تو اس نے کہا کہ آپ ایک ارب روپے کا کالم لکھ دیں۔ یہی کافی ہے۔ میرے خیال میں مجید نظامی کی عظیم ادارت میں نوائے وقت کا ہر کالم اربوں روپے کا کالم ہوتا ہے۔ یہ بات وہ بھی جانتے ہیں جو صرف روپوں کی خاطر نوائے وقت چھوڑ کر دوسرے اخبارات میں چلے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عامر عزیز ناقابل بیان حد تک درددل رکھنے والے آدمی ہیں۔ ان کی بہت سی باتیں ناقابل یقین حد تک درست ہیں۔ سپائن سنٹر گھرکی ہسپتال میں ایک سال کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ آپریشن ہوتے ہیں۔ گدھا گاڑیوں میں لاد کر لوگوں کو لایا جاتا ہے۔ بستروں پر بلکہ بستر مرگ پر لوگ آتے ہیں اور اپنے پاﺅں پر چل کر جاتے ہیں۔ ہر طرف دعاﺅں کا شور ہوتا ہے۔ دعائیں لی جاتی ہیں۔ دعائیں کرائی نہیں جاتیں۔ کسی سرکاری تقریب یا افتتاح کے بعد دعائے خیر کے لئے ان کو بھی کوئی یقین نہیں ہوتا جو دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ انہی کو تو یقین نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر عامر عزیز کو کئی دفعہ حکمرانوں کی طرف سے سیکرٹری ہیلتھ کے لئے پیشکش ہوئی۔ ایک دفعہ انہوں نے رضامندی ظاہر کی اور یہ شرط پیش کی کہ میرے معاملات میں مداخلت نہیں ہو گی۔ میں صحت عامہ کے لئے سارا نظام ٹھیک کر دوں گا۔ انہیں سیکرٹری ہیلتھ نہیں بنایا گیا کہ بیورو کریسی اور حکومتی لوگ گھبرا گئے کہ واقعی یہ نظام ٹھیک ہی نہ ہو جائے۔ نظام ٹھیک ہو گیا تو کیا بنے گا۔ بدنظمی ہماری گڈ گورننس ہے۔ یہی کامیابی ہے۔
گھرکی ہسپتال کے لئے مجھے ہمیشہ الجھن رہی کہ اس میں پیپلز پارٹی کا عمل دخل نہ ہو۔ میں نے صرف ثمینہ گھرکی کا نام سن رکھا تھا۔ اور کچھ جیالے زکریا بٹ جیسے خوشامدی ثمینہ گھرکی کے خاص بندے ہیں۔ ان کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر میں بہت پریشان تھا۔ مگر مجھے پتہ چلا کہ ہسپتال کے چیئرمین تو محسن گھرکی ہیں۔ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سیاست کے آدمی نہیں خدمت کے آدمی ہیں۔ کسی سیاستدان نے کوئی ہسپتال نہیں بنوایا۔ لاہور میں صرف دو ہسپتال بنوائے گئے ہیں۔ میو ہسپتال انگریزوں کی یادگار ہے۔ صرف جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال.... گنگا رام ہسپتال اور ایک ہندو کی فلاحی خدمت ہے اور گلاب دیوی ہسپتال ایک سکھ کی یادگار ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے پیچھے ایک سیاست تھی۔ وہاں غریب مریضوں کو گھسنے بھی نہیں دیا جاتا۔ میں نے عمران کی منت کی، کالم لکھے کہ میانوالی میں ایک چھوٹا موٹا جدید ہسپتال بنوا دو اور ایمبولینس سروس کا بھی اہتمام کرو مگر اس نے نمل یونیورسٹی بنائی جو میانوالی والوں کے کچھ کام بھی آئی تو اس میں پچاس سال لگ جائیں گے۔ نمل یونیورسٹی کو عالمی ذرائع سے امداد حاصل ہے۔ گھرکی ہسپتال کے لئے میں مخیر حضرات اور حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ توجہ کریں۔ شہباز شریف نے مناواں سنٹر پر دہشت گردی کے بعد ڈاکٹر عامر عزیز اور گھرکی ہسپتال کی خدمات سے متاثر ہو کر اڑھائی کروڑ روپیہ دیا تھا جس کا ذکر عامر عزیز نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔ اب بھی ان سے مہربانی کی امید ہے۔
گھرکی ہسپتال لاہور کا پسماندہ اور دور آباد علاقہ ہے۔ یہاں لو گوں کے لئے گدھا گاڑی سب سے بڑی ایمبولینس ہے۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے مریض ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور دشوار گزار خستہ حال راستوں سے ہسپتال پہنچتے ہیں اور صحت مند ہو کر واپس جاتے ہیں۔ اللہ پورے پاکستان کو صحت مند بنائے۔ راستے اور منزلیں آسان ہو جائیں۔ ڈاکٹر عامر عزیز دنیا کا تیسرا بڑا سرجن سپائن سرجری میں ہے۔ لوگوں کے جذبوں کی قدر کرنے والے بھی موجود ہیں۔ نہ بجلی نہ پانی میرا دل ہے پھر بھی پاکستان۔ پاکستان زندہ باد۔ ڈاکٹر عامر عزیز سچے پاکستانیوں اور سچے مسلمانوں کا ڈاکٹر ہے۔
جنرل مشرف کی کمر کا حال بڑا پتلا بتایا جا رہا ہے کہ یہ علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عامر عزیز نے مشرف دور میں بڑی سختیاں جھیلنے کے باوجود ایک سچے ڈاکٹر کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ میں صرف تین دن میں انہیں ٹھیک کر دوں گا۔ ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا۔ سپائن سنٹر کے لئے وہ کچھ دینا چاہیں تو وہ ان کی مرضی ہے۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں ہے۔ میں نے اللہ کے لئے یہ کام شروع کیا ہے۔ میرے لئے میرا اللہ کافی ہے اور اللہ کے بندے کافی ہیں۔ جن کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں وہ غریب لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں کچھ نہیں دے سکتے۔ صرف دعائیں دیتے ہیں۔ یہ دعائیں ان کے بھی کام آئیں گی جو اس کام میں شریک ہوں گے۔ یہ فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے کہ اس بہت بڑے کام میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔ میرے پاس ایک فزیو تھراپسٹ بابر آتا ہے۔ وہ کہتا کہ میں ہر روز گھرکی ہسپتال جاتا ہوں اور وہاں سپائن سنٹر کی شاندار عمارت کو دیکھتا ہوں۔ ہر بار وہ مجھے ایک نئی عمارت کی طرح لگتی ہے۔ اللہ کرے یہ عمارت قدیم ہو کر بھی جدید لگے۔