اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے چیف کوآرڈینیٹر صدیق الفاروق نے کہا ہے کہ لاہور میں 12 افراد کی نعشیں گرانا آئینی حکومت کیخلاف قادری اور چودھری کے لندن پلان کا حصہ ہے۔ اس سازش میں منہاج القرآن کے مسلح کارکنوں اور پرویز الٰہی کے چند وفادار پولیس ملازمین کو استعمال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے جوڈیشل کمیشن قائم کرکے سازش ناکام بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پاکستان میں انتخاب لڑنے کیلئے نااہل طاہر القادری اپنے مادر وطن کینیڈا میں بیٹھ کر پاکستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا امید ہے کہ کمیشن اپنے مینڈیٹ کے مطابق تحقیقات مکمل کر کے حقائق قوم کے سامنے پیش کریگا۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام وزرا اور کارکن متحد ہیں، پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں، باقاعدہ طور پر مشاورت ہوتی ہے۔ لندن پلان بے نقاب ہونے کے ڈر سے ’’قادری، چوہدری‘‘ گٹھ جوڑ نے عدالتی کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ 1990ء میں جب طاہر القادری نے اپنے گھر پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا تو ہائیکورٹ کے تحقیقاتی کمشن میں اس ڈرامے کا پول کھل گیا تھا۔ ہائیکورٹ کے جج نے 8 اگست 1990ء کو جاری ہونیوالی رپورٹ میں طاہر القادری کو جھوٹا، ڈرامہ باز، احسان فراموش اور پبلسٹی کا بھوکا قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کی روشنی میں طاہر القادری آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کی منتخب آئینی حکومت ہے اور وہ مدت پوری کریگی۔ 12 مئی 2007ء کو جب کراچی میں 50 شہریوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا اور 9 وکلاء کو چیمبروں میں زندہ جلا دیا گیا تو اس وقت کے آمر نے مکا لہراتے ہوئے اسے ’’حکومت کی طاقت‘‘ قرار دیا اور عدالتی تحقیقات کرانے سے یکسر انکار کردیا۔ چودھری برادران بھی اس کارروائی کا مرکزی کردار تھے، طاہر القادری اس سانحہ پر خاموش رہے تھے۔ طاہر القادری جمہوری نظام کا حصہ نہیں بن سکتے اسلئے وہ جمہوری نظام تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مسلح افواج کے خلاف بندوق اٹھانے کا حلف لینے والے اب مسلح افواج سے تعلق اور محبت کا جھانسہ دے رہے ہیں۔ سازشی عناصر اشاروں کنایوں اور افواہوں کے ذریعے اپنے آئین اور ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلح افواج کی حمایت کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کی ہدایت پر میدان عمل میں اتر چکی ہیں اور قوم ان کے اس کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں انتخاب لڑنے کیلئے نااہل طاہر القادری اپنے مادر وطن کینیڈا میں بیٹھ کر پاکستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ ’’قادری، چودھری‘‘ گٹھ جوڑ اب عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے، ذلت آمیز شکست ان کا مقدر بن چکی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی رہائشگاہ 180-H ماڈل ٹائون کے گرد قائم حفاظتی باڑ کو 1994ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ منظور وٹو نے رات دو بجے بلڈوز کروا دیا تھا۔ اس وقت نوازشریف، شہبازشریف، انکے والد میاں محمد شریف اور پارٹی کے سینکڑوں کارکن موجود تھے لیکن نوازشریف نے مشتعل پارٹی کارکنوں کو جوابی کارروائی سے روکدیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے یہ سوالات بھی تحقیق طلب ہیں۔ منہاج القرآن کی بلڈنگ کی چھت پر سے کس نے گولی چلا کر پولیس ملازم کو قتل کیا؟ منہاج القرآن کے ملازمین اور طلباء کو ڈنڈے کس نے سپلائی کئے؟ عمارت کے باہر پولیس پر اینٹوں کی بارش کرنے کیلئے کس نے نئی اینٹوں کے ٹرک سپلائی کئے؟ کیا طاہر القادری صاحب نے ٹویٹر پر 6 بجکر 32 منٹ پر اپنے کارکنوں کیلئے یہ پیغام نہیں دیا کہ ’’میرے ورکروں کیلئے یہ پہلا امتحان ہے، وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن ریاستی دہشت گردی کے سامنے اپنے سر نہیں جھکائیں گے‘‘ اور کیا اسکا مقصد اپنے کارکنوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کیلئے مشتعل کرنا نہیں تھا؟ منہاج القرآن کی عمارت کے اندر سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج اب تک تحقیقاتی ٹربیونل کو اب تک کیوں پیش نہیں کی گئی؟ ادارہ منہاج القرآن این جی او ہے کیا اسکا سیاسی استعمال کرنا جرم نہیں؟ کیا منہاج القرآن کے طلبا، اساتذہ اور ملازمین کو سیاسی جلسوں ، جلوسوں اور مارکٹائی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ طاہر القادری کس قانون اور کس حیثیت میں مسلح افواج کو اسلام ائر پورٹ اور ماڈل ٹائون کو قبضے میں لینے کی ہدایت جاری کرسکتے ہیں؟