ہم ،ادھر تم کے بعد، نہ تم چھیڑو، نہ ہم چھیڑیں

زرداری صاحب نے کہا ہے کہ تم ہمیں نہ چھیڑو، ہم تمہیں نہیں چھیڑیں گے، ورنہ سینتالیس کے بعد سے لسٹیں نکالوں گا اور اور سب جرنیلوں کو ننگا کر دوں گا۔
تو گویا مسئلہ ننگا کرنے کا ہے۔یا نہ کرنے کا ہے۔
زرداری صاحب کی پارٹی کے بانی بھٹو نے ستر کے عام انتخابات کے بعد کہا تھا، ادھر ہم ، ادھر تم، اس خواہش کی تسکین اس وقت ہوئی جب مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خاں نے فوجی آپریشن شروع کر دیا اور بھٹو نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔اسی ٹکا خان کو انہوںنے اپنے دور حکومت میں آرمی چیف بنایا، پھر پنجاب کا گورنر بنایا اور پھر پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل۔یہ سب کس خدمت کا صلہ تھا۔اس کی حقیقت تو اب بچہ بچہ جانتا ہے۔
بھٹو صاحب کی پاکستان بچانے کی خواہش یوں پوری ہوئی کہ ادھر ان کو اقتدار مل گیا ، دوسری طرف اس پارٹی کو اقتدار مل گیا جو مشرقی صوبے میں جیتی تھی مگر پاکستان ایک نہ رہا تھا، کس قدر بھیانک تعبیر تھی اس خواب کی۔
اب زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہمیںمت چھیڑو، ہم تمہیں نہیں چھیڑیں گے، اس لئے بھی نہیں چھیڑنا چاہتے کہ تم بلوچستان میں پھنسے ہوئے ہو، تمہیں را بھی تنگ کر رہی ہے اور تمہیں دہشت گردوں نے بھی چیلنج کر رکھا ہے۔کیا رحمدلی کا جذبہ ہے جوزرداری صاحب کے دل میں اپنی پیاری فوج کے لئے موجزن ہے ۔اور بیان بدل کے کہتے ہیں کہ یہ تو ہم نے مشرف کو کہا ہے جو ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ ہے تو کیا مشرف کو را تنگ کر رہی ہے، کیا و ہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور فاٹا میں دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے۔انسان پھسل جائے تو پھر اس کے پائوں کہیں نہیں ٹکتے۔
انہیںکون کہے کہ آپ کو کوئی چھیڑے ، یانہ چھیڑے، آپ ضرور چھیڑیں اور زبان کھولیں اورکرپٹ جرنیلوں کااحتساب کریں یا کروائیں۔ برائی پر چپ رہنا بھی برائی ہے اورا ٓپ کے مقابلے میں ایک توفیق بٹ اچھا تھا جس نے اسی نوائے وقت میں آپ کے مشیر خاص ڈاکٹر قیوم سومرو کا کچا چٹھا کھولا تھا۔
قیوم سومرو کے خلاف ابھی صرف دو کالم نگار بولے ہیں ، خدا ہر کالم نگار کوبولنے کی توفیق دے تاکہ قیوم سومرو کی بخشیشوں کا کچا چٹھا سب کے سامنے آئے ، نہیں تو قیوم سومرو خود یہ لسٹیں اچھال دیں اور میڈیا کو ننگا کر دیں، کیوں چپ ہیں اور زرداری صاحب بھی اتنے دنوں سے کیوں چپ ہیں، بروں کو برا کیوں ثابت نہیں کرتے، صرف اس اصول پر کہ نہ تم چھیڑو، نہ ہم چھیڑتے ہیں۔من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو!
اب زرداری صاحب نے اپنے فقرے کو یوں گھما کر ادا کیا ہے کہ ہر ادارہ اپنی ڈومین میں رہے۔ یعنی اپنے دائرہ کار اور اپنی حدود میں رہے تاکہ ساری قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوج کی پشت پناہی کرے، زرداری صاحب کو یاد نہیں رہا کہ جب نیشنل ایکشن پلان پر انہوںنے انگوٹھا ثبت کیا تھا تو اس میں صراحت کی گئی تھی کہ سنگین جرائم کا بھی خاتمہ کیا جائے گا اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں، سرمایہ کاروںکے خلاف بھی ضرب عضب ہو گی، یہی ضرب عضب کراچی میں شروع ہے اور زرداری صاحب کو د ن میں تارے نظر آ گئے ہیں۔
زرداری صاحب اور ان کے دوسرے پارٹی لیڈروںنے حالات کی نزاکت بھانپ کر سابقہ بیان سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ہے، کہتے ہیں ، انہوںنے فوج کی تضحیک نہیں کی نہ کسی حاضر سروس جرنیل کو للکارا ہے، ان کا نشانہ تو جنرل مشرف ہیں تو سوال یہ ہے مشرف تو اپنے کئی تین سال بھگتا کر ریٹائر ہو چکے مگر زرداری صاحب نے تو کہا تھا کہ آپ تو تین سال بعد ریٹائر ہو جائو گے، ہم نے ہمیشہ رہنا ہے اور سیاست کرنی ہے۔یہ تو واضح طور پر سرونگ جرنیل کی طرف اشارہ ہے، اور انہی کو کہا گیا ہے کہ تم ہمیں نہ چھیڑو، ہم تمہیںنہیں چھیڑتے،جنرل مشرف تو کراچی میں کسی آپریشن کی کمان نہیں کر رہے، زرداری صاحب کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بیان انہوںنے دے دیا، سو دے دیا، اب اس کی تاویلیں کیوں پیش کر رہے ہیں۔ مرد حر بنیں اورا س پر قائم رہیں جیسا کہ ان کی پارٹی نے کہا ہے کہ ہم یہ بیان واپس نہیںلیں گے، مگر ان سے کس نے کہا ہے کہ بیان واپس لو، بڑے شوق سے اس پر ڈٹے رہو، جماعت اسلامی بھی اپنے بیان پر دٹی رہی ، ایم کیوایم کے قائد بھی اپنے بیان پر ڈٹے رہے اور ایک میڈیا ہائوس بھی ا پنے بیان پر ڈٹا رہا۔ان کا کسی نے کیا بگاڑ لیا جو زرداری صاحب کا بگاڑ لیں گے۔ یہ تو خدا نے ان سب کو ڈھیل دے رکھی ہے کہ اس کے عطاکردہ پاکستان کی قسمت کے ساتھ جیسے مرضی کھیلو۔
اب کراچی کا محشرستان ہے، ڈاکوا ور لٹیرے، پتھاریدار اور بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور نشانہ باز سبھی کے سبھی، رینجرز کے نشانے پر ہیں۔ لسٹوں پر لسٹیںآ رہی ہیں، گرفتاریوں پر گرفتاریاںہو رہی ہیں۔گھنائونے جرائم آشکارا ہو رہے ہیں اور شواہد بتا رہے ہیں کہ یہ آ پریشن کسی فر واحد کے خلاف نہیں، کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے خلاف نہیں، کسی ایک گروپ کے خلاف نہیں۔صرف اور صرف مجرموںکے خلاف ہے۔اور ان مجرموں کے سرپرستوں کو آنچ پہنچ رہی ہے تو یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے، زرداری صاحب اگر کسی کے سرپرست نہیں تو انہیں کیا ضرورت ہے کسی وایلے کی،وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچنے دیں۔اور اپنے آپ کو بھی احتساب کے لئے پیش کر دیں، وہ طویل قید کاٹنے پر فخر کرتے ہیں تو اب کس چیز سے ڈرتے ہیں، کیوں ڈرتے ہیں۔
اور بڑااحسان جتایا ہے زرداری صاحب نے کہ قومی پشت پناہی سے دہشت گردی کے خاتمے میںمدد ملی۔ سوال یہ ہے کہ جب ضرب عضب شروع ہوئی تو کس قوم نے اس کی پشت پناہی کی تھی،قوم نے تو شلجموں سے مٹی جھاڑنے کا عمل ا س وقت کیا جب پشاور میںننھے پھول مسلے گئے اور آج میاں شہباز شریف کے بیان سے انکشاف ہوا کہ اس سانحے میں جو شہید ہو گئے وہ تو شہید ہو گئے، مگر جو بچے زخمی تھے ، وہ اب تک لاوارث پڑے ہیں، اب شہباز شریف نے ان پر رحم کھاتے ہوئے ان کے علاج معالجے کا بیڑہ اٹھایا ہے مگر کہاں رہے سال بھر زرداری صاحب، عمران صاحب، سراج الحق صاحب، اسفند یار ولی صاحب اور اچکزئی صاحب،یہ بھی تو اسی قوم کا حصہ تھے جن کے بارے میں زرداری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے فوج کی پوری پشت پناہی کی۔
میرے خیا ل میں فوج کو کسی دھمکی کی پروا نہیں ہے، وہ بے خوف و خطر ہو کر اپنا فریضہ نبھا رہی ہے ، یہ فریضہ اسے پارلیمنٹ نے سونپا ہے اور نہ بھی سونپا ہوتا تو آئین نے ضرور سونپا ہے، اندرونی ا ور بیرونی خطرات سے ملک کا دفاع کرنا فوج کا فریضہ ہے۔
مجھے بھی زرداری صاحب کی دھمکیوں سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا، اگرہماری قسمت خراب ہے اور ہم نے زرداری صاحب کے ہاتھوں برباد ہونا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہماری مدد نہیںکرسکتی ۔ اکہتر میں انہی کی پارٹی کے بانی کے ہاتھوں ہماری قسمت خراب ہوئی، ادھر ہم اور ادھر تم ہو کر رہا، آج نہ چھیڑو اور نہ چھیڑیں گے، کی پالیسی نے غلبہ پانا ہے تو پھر ہم اپنا مقدر کیسے بدل سکتے ہیں۔
آیئے ، اپنی بربادی کو خوش آمدید کہیں۔مگر اس سے پہلے کوئی صاحب ڈاکٹر قیوم سومرو کی لسٹیں تو نکالیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن