سیاسی بلوغت

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں میترانوالی ہائی سکول میں پڑھتا تھا او راکثر و بیشتر قریبی قصباتی شہر ڈسکہ بغرض شاپنگ آنا جانا رہتاتھا۔ ڈسکہ کی سڑکوں پر بجلی کے کھمبوں پر چھوٹے بڑے سائز کے رنگ برنگے چمکیلے سینما بورڈ لٹکتے نظر آتے جن پر کسی انگریزی فلم کی تشہیر ہوتی اور ساتھ لکھا ہوتا ’’ہائوس فُل، کھڑکی توڑ اور صرف بالغوں کیلئے ہم بڑے متجسس ہوتے کہ آخر یہ کیا چیز ہے جو صرف بالغوں کیلئے ہے۔ ایک دن ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ سکول کی کوئی کتاب لینے ڈسکہ گئے تو افشاں سینما میں دوپہر کا شو دیکھنے کی ٹھانی، بڑی مشکل سے ٹکٹ لیکر اپنی سیٹوں پر بیٹھے تو پتہ چلا وہ فلم کیا تھی بس چند فحش فلموں کے ’’ٹوٹے‘‘ جوڑ کر چلائے جا رہے تھے اور ساتھ میں سائیڈ پروگرام کے نام پر نیم فحش پنجابی گیت مالا پروگرام میں شامل تھا۔ انٹروَل ہوا ہال کی لائٹس آن ہوئیں تو ہم نے دیکھاکہ ہمارے ساتھ والی سیٹوں پر ہمارے ریاضی اور سائنس کے ٹیچرز براجمان تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھا ہم نے انہیں دیکھا انہوں نے اپنے چہرے پر اخبار کر لی اور ہم نے اپنی گود میںپڑے ٹیسٹ پیپرز کے پیچھے منہ چھپا لیا۔
قارئین! چند ہفتے پیشتر سابق صدر آصف علی زرداری جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے وصیتی شریک چیئرمین بنے، جنہیں زعم ہے کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے گئے(یہ علیحدہ بات کہ اسکے عوض انہیں کیا کیا جتن کرنے اور پاپڑ بیلنے پڑے) آصف زرداری صاحب نے باپ اور بیٹے کے درمیان پائی جانے والی چپقلش اور اندرون خانہ شدید لڑائی کی وجہ سے اپنے ہی اکلوتے بیٹے کو یہ کہہ کر پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا کہ بلاول صاحب ابھی سنِ بلوغت کو نہیں پہنچے ۔ زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ جب بلاول صاحب ذہنی اور سیاسی طور پر بالغ ہو جائینگے تو انہیں پارٹی کی قیادت دوبارہ سونپ دی جائیگی۔ بلاول کی پیپلزپارٹی کی چیئرمین شپ سے علیحدگی کی خبر لاکھوں لوگوں کیلئے سمجھ سے بالاتر تھی۔ یعنی جب بلاول صاحب کو پیپلزپارٹی کی قیادت سونپی گئی تھی تب انکی عمر بھی اتنی نہ تھی کہ انہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا چیئرمین بنایا جاتا۔ بلاول کو اس وقت 26سال کی عمر میں بھی بقول زرداری صاحب نابالغ قرار دیا گیا ہے۔ وہ آج سے آٹھ سال پہلے کس پوزیشن میں ہوگا۔ یہ صرف زرداری صاحب کو ہی پتہ ہے مگر اس سے بھی انہونی بات یہ ہوئی کہ جب جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج سندھ رینجرز نے معاشی دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو قومی سیاست کے اندر ایک بھونچال آ گیا۔ ہزاروں ارب روپے ہڑپ کر جانیوالے بیوروکریٹس ،سیاستدان ، سابقہ و موجودہ اراکین کابینہ اور معزز پارلیمنٹیرین اپنے بچائو کیلئے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ روپے کی اتنی بے توقیری نہ دیکھی نہ سنی ہو گی کہ پکڑے جانے کے خوف سے اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جلائے جانے لگے اور گھروں کے تہہ خانوں سے اور سمندر میں رواں دواں لانچوں سے اربوں روپے برآمد کیے گئے۔ اس کرپٹ مافیا کے کوریئرز بھی جب پکڑے جانے لگے تو سابق مسٹر ٹین پرسنٹ کو یہ خیال آیا کہ بلاول کوتُرپ کے پتے کے طور پر کیوں نہ استعمال کیا جائے ۔ جس بلاول کو کل تک ناپختہ عقل قرار دیکر معطل کر دیا گیا تھا وہ بلاول راتوں رات ذہنی، سیاسی طور پر بالغ قرار پایا۔ سچ ہے بزرگ کہتے ہیں کہ جب بندریا کے پائوں جلنے لگتے ہیں تو پائوں کے نیچے اپنے بچے رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتی اور زرداری صاحب کے پاس قربان کرنے کیلئے صرف بلاول ہی تو بچا ہے۔ میں نے سندھ کی ایک بہت ہی معروف مذہبی اور سیاسی شخصیت سے پوچھا کہ مجھے زرداری کے معنی بتائو تو انہوں نے کہا کہ سندھی میں زر کا مطلب مال اور داری کا مطلب منتقل کرنے والا ہے جو کہ زمانۂ قدیم میں اپنے اونٹوں پر مال کی ترسیل ممکن بناتے تھے۔ قارئین! ایک دوسری خبر جو زرداری صاحب نے اپنے متعلق مشہورکر رکھی ہے وہ یہ کہ موصوف یاروں کے یار ہیں اور جس دوران موصوف سمگلنگ، ڈاکہ زنی، منشیات، منی لانڈرنگ اور کمیشن کک بیک کے مقدموں میں پابند سلاسل تھے تو انہوں نے اپنے گرد نہ صرف پروفیشنل چور، ڈاکو، لٹیرے اور جرائم پیشہ افراد کا ایک بڑا گروہ اکٹھا کر لیا بلکہ میرے اور ذوالفقار مرزا جیسے لوگوں کو وہ یہ چکمہ دینے میں بھی سوفیصد کامیاب رہے کہ آصف علی زرداری کسی کا احسان سر پر نہیں رکھتا۔ اس غیر معمولی تشہیر کے ذریعے زرداری صاحب اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے اور آج ملک کے اندر ہی نہیں سوئیٹزرلینڈ یورپ میں مسٹر رِمی، مسٹر گریگوفٹسے اور امریکہ میں سابق کانگریس مین مسٹر سیٹون گریو جیسے لوگ آصف علی زرداری کی طوطا چشمی اور احسان فراموشی پر محوِ حیرت ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ آصف علی زرداری کے نزدیک حصولِ مقصد کیلئے کوئی جائز ناجائز طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اپنی صدارت کے ابتدائی ایام میں گورنر پنجاب کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں سنٹرل میز پر میرے اور آصف علی زرداری کے علاوہ افتخار احمد(جوابدہ) مبشر لقمان (اینکر) طاہر سرور میر(اینکر) اور پروفیسر اجمل نیازی(دانشور) بیٹھے تھے۔ ان اصحاب کی موجودگی میں آصف زرداری نے یہ قبول کیا کہ آج میں جس جگہ پر بیٹھا ہو اس تک پہنچانے میں مطلوب وڑائچ نے کلیدی کردار ادا کیا مگر قارئین میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سیاسی بالغ قسم کے مفاد پرست لوگ، ہم جیسے دوستوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں مگر کوئی بات نہیں وقفے کے بعد کی فلم تو ابھی باقی ہے اور اس فلم کے مرکزی ولن کردار کو ’’صرف بالغوں کیلئے والے بورڈ اتار کر کھمبوں پر لٹکایا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...