آبی مسائل کے حل کی تلاش : مواقع اور امکانات(24)

زیرِ نظر مضمون کی گذشتہ 23 اقساط میں زیرِ بحث لائے گئے موضوعات کا مرکزی محور یہ امور تھے کہ مختلف ممالک نے اپنے آبی مسائل کو کس طرح حل کیا ہے ، اور کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں تصورات اور حقیقی صورت ِحال میں کیا فرق ہے؟ 

گذشتہ اقساط میں سرکاری ریکارڈ کی مدد سے اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ کالاباغ ڈیم کے ڈیزائن کے مطابق آبی ذخیرے سے کوئی بھی نہر نکالنا قابلِ عمل نہیں اور چشمہ رائٹ بنک لِفٹ کینال منصوبے کی منظوری کے بعد اب تو اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہی۔ سندھ کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ سیلابہ کے علاقوں میں آبپاشی کی ضروریات کی تکمیل اور کوٹری سے زیریں جانب مستقل بنیادوں پر پانی کا بہاﺅکالاباغ ڈیم منصوبے کا حصہ ہیں۔اسی طرح اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ خیبرپختونخوا کی حکومت خود تیکنیکی ماہرین کا تقرر کر کے یہ ضمانت حاصل کرسکتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پشاور کی وادی کو سیلاب سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس علاقے میں اراضی سیم اور تھور کا شکار ہوگی۔
وفاقی طرزِ حکومت کی نسبت وحدانی طرزِ حکومت میں بالائی اور زیریں علاقوں کے درمیان آبی مسائل کا حل نسبتاً آسان کام ہے۔ کیونکہ وفاقی طرزِ حکومت میں ہر اکائی علیحدہ سیاسی تشخص رکھتی ہے، اس کی اپنی اسمبلی ، اپنا حلقہ انتخاب اور اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ چونکہ کسی بھی وفاقی آئین کے ڈھانچے میں عدالتِ عظمیٰ ہی حتمی ثالث کا کردار ادا کرتی ہے، تو کیا ہمیں یہ تصور کر لینا چاہیے کہ گھمبیر اور پیچیدہ آبی مسائل بھی عدالتی نظام کے ذریعے ہی بہتر انداز میں حل کئے جاسکتے ہیں ؟ بھارتی دستور تشکیل دینے والے ماہرین کو اس بات کا احساس تھا کہ بھارت کی مختلف ریاستوں کے درمیان پانی کے موجودہ اور مستقبل کے مسائل کو حل کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے ۔ چنانچہ انہوں نے دستور کے آرٹیکل 262 کے تحت مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ ان تنازعات کو حل کرنے کیلئے عدالتی ٹربیونل قائم کر سکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے 2012 ءمیں کالاباغ ڈیم سے متعلق کیس پر اپنے فیصلے میں لکھا ”اِس معاملے کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے خلوصِ نیت کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس منصوبے کا مقدر تصورات اور گمان کی نذر نہ ہونے پائے........“
دُنیا بھر کے تجربات کی بنا پر یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں پانی کی تقسیم، سیلاب سے بچاﺅ ،حتیٰ کہ خشک سالی کے دوران پانی کی قِلت سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل وضع کرنے کے بہتر امکانات موجود ہوتے ہیں ،اور سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے زیادہ دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات پاکستان میں ہمارے تجربے پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمارے یہاں 1969 ءمیں وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ طے کرنے کیلئے اکتوبر 1970 ءمیں جسٹس فضل اکبر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ۔ بعد ازاں اِسی مقصدکیلئے1977 ءمیں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حلیم کی سربراہی میں حلیم کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان حلیم کمیشن کے ارکان تھے، تاہم مذکورہ کمیٹی اور کمیشن کے ارکان اِس بارے میں کوئی متفقہ رپورٹ پیش نہ کرسکے اور یوں یہ معاملہ حل نہ کیا جاسکا۔
اس پس منظر میں 1991 ءکے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف نے معاملے کے حل کیلئے فنی ماہرین کی کمیٹی یا عدالتی نظام پر تکیہ کرنے کی بجائے عملی قدم اٹھاتے ہوئے چاروںصوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی۔ پانی کی تقسیم کا معاملہ طے کرنے کیلئے یہ بہترین قدم تھا کیونکہ سرکاری ملازمین اور فنی ماہرین مسائل کے حل کیلئے دلیرانہ فیصلے کرنے سے خائف رہتے ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں قومی اہمیت کے تنازعات کو حل کرنے میں سودا کاری کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ مذاکراتی عمل کے دوران اتفاقِ رائے تک پہنچنے کیلئے اچھوتی اور غیرمعمولی طرزِ فکر اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذاکراتی عمل میں یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو جگہ دینے کیلئے اپنے ہاں گنجائش پیدا کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ چنانچہ وزرائے اعلیٰ کی کمیٹی نے مذاکرات کے دوران قانونی موشگافیوں اور تیکنیکی معاملات پراپنا وقت صرف کرنے کی بجائے ”کچھ لو ، کچھ دو“ کا سیاسی اصول استعمال کیا اور یوں یہ مذاکرات مارچ 1991 ءمیں پانی کی تقسیم کے معاہدے پر منتج ہوئے ۔ اس پیش رفت سے کئی سال قبل پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ طے پاچکا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان واٹر سکیورٹی سے وابستہ یہ ایک جذباتی مسئلہ تھا۔ تاہم بھارت کے ساتھ اس نازک معاملہ کو طے کرنے میںفیلڈ مارشل ایوب خان کی جرا¿ت اور اُن کی فوج سے وابستگی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مذکورہ ہر دو صورتوں یعنی پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اورپاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے میں فریقین کو مصلحت کے ساتھ اپنے نقطہ¿ نظر پر سمجھوتہ کرنا پڑا اور توقع کے عین مطابق دونوں معاہدوں کے نتیجے میں کوئی ایک فریق بھی نہ تو خوش ہے اور نہ ہی مطمئن۔
2000 ءکے عشرے میں پاکستان میں پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی کوشش کی ۔ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ کالاباغ ڈیم سے وابستہ تنازعات کو حل کرنے کی کسی بھی کوشش کے خطرناک سیاسی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کوشش کے باریاب ہونے کا اِمکان اس قدر پُرکشش تھا کہ صدر مشرف جیسا فوجی حکمران بھی یہ کوشش کئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اُن کی اِس پیش رفت کے نتیجے میں تیکنیکی اور سیاسی کمیٹیوں کی تشکیل ہوئی۔ دونوں کمیٹیوں کے سربراہ صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی کمیٹی کی سربراہی نثار اے میمن جبکہ تیکنیکی کمیٹی کی قیادت اے این جی عباسی کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں ہی اس معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا نہ کرسکے۔گویا ایک مرتبہ پھریہ بات واضح ہوگئی کہ فنی ماہرین معاملات کے حل میں غیرمعمولی احتیاط برتنے کے عادی ہوتے ہیں۔وہ اپنی ذات پر ”مقصد سے غداری“کا ٹھپّہ لگوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اسی وجہ سے سیاسی دباﺅ کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ کمیٹیوں کے ارکان مختلف گروپوں میں منقسم ہوگئے جبکہ ارکان کی اکثریت کالاباغ ڈیم کے بارے میں اپنے صوبوں کی ثقّہ بند پوزیشن کے خول سے باہر نکلنے میں ناکام رہی۔ مذکورہ تناظر میں اس بات کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جن دنوں سیاسی کمیٹی اس معاملے کا جائزہ لے رہی تھی، اُن ہی دنوں کالاباغ ڈیم کے مخالفین چند لاریوں میں سوار ہوکر کمیٹی کے سربراہ نثار اے میمن کی کراچی میں واقع رہائش گاہ پہنچے اور اُنہیں ہراساں کیا۔ معاملہ ازخود حل کرنے کی بجائے سیاسی کمیٹی نے اس بات کی سفارش کی کہ اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں بھجوا دیا جائے۔اِن حالات میں سیاسی کمیٹی کی جانب سے بڑے ذخائر کی تعمیر کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھجوانے کی تجویز نہایت صائب معلوم ہوتی ہے۔
1973ءمیں ہم نے متفقہ طور پرآئین منظور کیا اور 1991ءمیں ہم پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوئے۔ہم این ایف سی ایوارڈ پر بھی باہم رضامند ہوتے رہتے ہیں اور ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کی حکومت کے ساتھ پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا دیرینہ مسئلہ بھی حل کیا ہے۔
مستقبل میں ہمیں پانی کے حوالے سے شدید مسائل درپیش ہوں گے اور اوپر بیان کئے گئے تمام مثبت عوامل کے باوجود اِن مسائل کے حل کی تلاش ہماری صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہوگا۔
کالاباغ ڈیم کے مسئلے کا حل مفاہمت کے عمل کو مہمیز دے کر تبدیلی کی ایک لہر کا موجب بنے گا،اور ہم اس قابل ہوپائیں گے کہ اپنے تمام آبی مسائل کواحسن انداز میں حل کرسکیں۔ اس بات کا تصور ہی خوش کن ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین مل کر اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھیں۔یہ سوچ کر ہمارا دل جھوم اُٹھتا ہے۔ اس اتفاقِ رائے سے ملک متحد ہوگا اور اُن قومی سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا جن کا حلقہ اثر بوجوہ سکڑ رہا ہے اور وہ علاقائی پارٹیوں کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن