پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جن میں سے 44فیصد کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور جی ڈی پی میں 21فیصد اضافہ بھی زرعی شعبہ کرتا ہے ۔ گزشتہ چند سالوں سے یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے جسکی بڑی وجہ اس شعبے کی طرف حکمرانوں کی عدم توجہ ہے ۔ قومی شرح نمو میں بھی زراعت کے شعبہ کا کردار بہت اہم رہا ہے لیکن زراعت کی ترقی کیلئے کوئی واضع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی فصلوں جن میں کپاس اور چاول شامل ہے کی پیداوار میں بہت زیادہ کمی ہوئی ۔ خصوصاً کپاس کی فصل میں کمی نے مجموعی قومی پیداوار کو بُری طرح متاثر کیا ہے ۔ حالیہ قومی اقتصادی سروے میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مجموعی قومی پیداوار میں وہ ترقی نہیں ہو سکی جسکی توقع کی جا رہی تھی ۔
اس کے باوجود موجودہ حکومت کہتی ہے کہ زرعی اجنا س کی کم ہو تی ہو ئی قیمتیں اور غےر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے زراعت کا شعبہ عالمی بحران کا شکارہے جس کے اثرات پاکستان کے زرعی شعبے پر بھی پڑے ہےں۔ وفاقی بجٹ 2016-17میں کسانوں کیلئے بہت سی مراعات کا اعلان کیا ہے حکومت نے کسانوں کیلئے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ دیاہے تو بے جا نہ ہوگا۔وزےر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہو ئے کہا کہ "سب کچھ لٹا دےا ہے "
ےعنی کہ کسانو ں کےلئے بہترین بجٹ ہے ۔حکومت نے یوریا کھاد کی قیمت یکم جولائی سے 1400 فی بوری کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں کمی کر کے اُسے بھی 2500 روپے فی بوری کرنے کا اعلان کیا ہے حکومت نے ڈیری اور لائیو سٹاک پردرآمد ڈیوٹی کو پانچ فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دیا ہے ۔ زرعی ادویات پر سیلزٹیکس ختم کر نے کا اعلان کیا ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے پہلے بجلی کا یونٹ 8 روپے کا تھا اب اُسے کم کر کے پانچ روپے 35 پیسے کا کر دیا گیا ہے۔ جعلی ادویات اور بیجوں کی فروخت کے خلاف پارلیمنٹ سے قانون منظور کروانے کا اعلان بھی شامل ہے۔ مویشیوں کے چارہ کیلئے استعمال ہونے والی مشینری پر عائد ہونے والی کسٹم ڈیوٹی کو بھی پانچ فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دیا ہے۔ زرعی اجناس کو ذخیرہ کرنے کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری اور آلات کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کر دیا گیاہے۔ کیڑے مار ادویات پر سیلز ٹیکس مکمل ختم کردیا گیاہے۔ جب 15 ستمبر 2015 کو وزیراعظم نے کسانو ں کیلئے 341 ارب روپے کی کیش امداد اور ڈی اے پی کھاد پر 20 ارب روپے کی سبسڈی دے کر فی بوری میں500 روپے کی کمی اور یوریا کھاد کی قیمتیں مناسب سطح پر رکھنے کیلئے بھی سبسڈی دی گئی۔ زرعی شعبے کو 2015-16 میں دی گئی محصولات کی رعایت جو کہ 15 ارب کی قریب ہے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گےا ۔ گزشتہ تین سالوں میں چھوٹے کاشتکاروں کیلئے زرعی قرضوں کا حجم 336 ارب سے بڑھا کر 600 ارب روپے کیا گیااور اب اس حجم کو بڑھا کر 700 ارب روپے کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک ، نیشنل بینک و دیگر بینکوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ زرعی قرضوں پر مارک اپ کی شرح کو دو فیصد تک لایا جائے۔ قر ض واپس نہ ہونے کی صورت میںحکومت بینکوں کو قرض واپسی کی گارنٹی بھی دے رہی ہے۔ ےہ تب ہی ممکن ہے اگر حکومت عمل کرے ،بجٹ میں تقرےر اور فائلوں میں کسانوں کےلئے خوشحالی بن کر نہ رہ جا ئے ،بلکہ اس پر عملدرآمد کےلئے مےکنزم واضح کیا جائے ۔ تب جا کر ان اقدامات سے کسان فائدہ اٹھا سکیں گے اور زرعی شعبے کو فائدہ ہو گا۔ورنہ پہلے بھی بہت سے پیکجز دئےے گئے مگر من وعن عمل نہ ہو سکا اس کی ایک مثال ےہ ہے کہ لودھراں میں ضمنی الیکشن سے پہلے کسانوں کےلئے پیکچ کا اعلان کیا گےا جس پر جہانگےر ترین صاحب کہتے ہےں کہ اس پیکچ کا ایک پیسہ بھی کسانوں کو نہےں دےا گیا۔اب اس وعدے کے وفا کےلئے عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ورنہ ےہ کسان بجٹ تقرےر وں میں تو بہترین ہو گا مگر حقیقی نہےں کہلائے گا۔