ایک اینٹ گرنے کی دیر ہے!

بھارت کا چوتھا سب سے بڑا شہر حیدرآباد دکن اپنی روشن اسلامی تاریخ اور سنہری ثقافت کی وجہ سے جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ریاست حیدرآباد کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علائوالدین خلجی کی آمد سے شروع ہوکر بہمنی، شاہی اور آصف جاہی دور کے حوالوں سے بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔حیدرآباد دکن کو موتیوں اور مسلمان نظام بادشاہوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حیدرآباد دکن اگرچہ اِس وقت ہندوستان کی جنوبی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کا مشترکہ دارالحکومت ہے، لیکن تقسیم ہندوستان کے وقت حیدر آباد دکن برطانوی ہندوستان میں ایک مکمل آزاد اور خود مختار ریاست تھی اورحیدر آباد اِس ریاست کا دارالسلطنت تھا، جہاں اِس کا اپنا سکہ رائج تھا اور اپنی حکومت قائم تھی،مگر 1947ء میںتقسیم ہندوستان کے بعد بھارتی سرکار نے حیدرآباد دکن کو 1948ء میں ایک فوجی ایکشن کے ذریعہ زبردستی بھارت میں شامل کر لیا۔
یوں تو ریاست حیدرآباد دکن کا جغرافیائی نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا لیکن17ستمبر 1948ء تک جب بھارتی فوج نے غاصبانہ طور پر نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اُس وقت تک بھی ریاست حیدر آباد 86ہزار مربع میل کے وسیع رقبے پر پھیلی ایک عظیم ریاست تھی اور یہ رقبہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923 ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد جو اسلامی مملکتیں باقی بچی تھیں، ان میں سعودی عرب، افغانستان ، ایران اور دیگر ممالک شامل تھے، لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاست حیدرآباد کو جو بین الاقوامی مقام حاصل تھا اُس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں روشن باب کے طور پر موجود ہے۔مثال کے طور پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا تو ایسے وقت میں نظام حیدر آباد نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے انگلستان کی ڈوبتی ناؤ کو بڑی حد تک سہارا دیا‘‘۔صرف یہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے اخراجات بھی ریاست حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لئے ’’مدینہ بلڈنگ‘‘ کے نام سے شان دار عمارتیں تعمیر کی گئیںجو آج بھی باقی ہیں۔ یہ عمارتیں مکہ اور مدینہ کے لئے وقف تھیں جن کے کرائے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے، اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لئے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین کے قریب بھی عمارتیں بنواکردی تھیں۔یہ صرف نظام حیدر آباد کی سخاوت ہی نہ تھی بلکہ حیدر آباد ریاست کی خوشحالی اور امارت کو بھی ظاہر کرتی تھی۔
قیام پاکستان کے وقت نوخیز مملکت کی مدد کرنے والوں میں حیدر آباد کی ریاست بھی شامل تھی، اس مقصد کیلئے نظام (والی) حیدر آباد نے پاکستان کو ایک لاکھ پونڈ تحفے کے طور پر دیئے تھے جو نظام حیدر آباد کے وزیر خزانہ نے پاکستان کے برطانیہ میں اُس وقت کے ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیئے تھے لیکن حیدر آباد پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد اس رقم کی منتقلی اُس وقت لٹک گئی جب بھارتی دباؤ پر نظام حیدرآباد کے ورثاء نے اُس رقم کی واپسی کا تقاضہ کردیا۔ 50ء کی دہائی میں پاکستان میں حکومتوں کی مسلسل تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نظام حیدرآباد کی جانب بھجوائی جانے والی اس رقم کا معاملہ حل نہ ہوسکا، جس کے بعد اِس اکاؤنٹ کو جیسے سب بھول ہی گئے، اُدھر گذشتہ 68 برسوں میں یہ رقم بینک کی جانب دیے جانے والے معمولی منافع کے باوجود بڑھتے بڑھتے 35 ملین ڈالر تک پہنچ گئی اور اِسے حیدر آباد فنڈ کا نام دے دیا گیا۔پانچ سال پہلے انگلینڈمیں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو جب اِس بینک اکاؤنٹ کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے اِس رقم کے حصول کیلئے وزارت خارجہ سے طویل خط و کتابت کے بعد اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے برطانیہ میں قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا۔ واجد شمس الحسن کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے ریاست حیدرآباد کے تمام وسائل، خزانوںاور فنڈز کی ملکیت کا دعوی جتانے پر برطانیہ میں کیس شروع ہوا۔ اُدھر پاکستانی ہائی کمشنر کے عہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی اس مقدمے سے تقریبا علیحدگی اختیار کرلی تو نظام حیدر آباد ہفتم کے ورثا اور بھارتی حکومت نے اِس رقم کے حصول کی کوششیں تیز کردیں تھیں لیکن چھ دہائی بعد ہی سہی ، پاکستان نے اِس کیس میں فریق بننے کی درخواست دی تو بھارت کو جیسے آگ ہی لگ گئی ، لیکن عدالت میں مضبوط دلائل اور ناقابل تردید شواہد کی مدد سے پاکستان نے اِس کیس میں فریق ہونے کا کیس جیت لیا۔
پاکستانی وکلاء کی ٹیم نے عدالتی چارہ جوئی کے دوران اپنے مقدمے کو برطانوی حکومت کی تاریخی دستاویزات اور دلائل سے مضبوط بناتے ہوئے کہا ’’تقسیم ہندوستان کے وقت برطانوی حکام آگاہ تھے کہ حیدر آباد کی ریاست اور اس کے عوام بھارت کے اُس رویے پرتشویش کا اظہار کر رہے تھے، جس میں حیدرآباد کی ناکہ بندی اور ریاست کو ادویہ اور خوارک کی فراہمی کو روکنا شامل تھا جبکہ اُن اقدامات کا مقصد نظام حیدرآباد کو بھارت میں شامل ہونے پر مجبور کرنا تھا۔ جب قائد اعظم کا انتقال ہوا تو بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدرآباد پر فوج کشی کر دی اور نظام ہفتم کو زیر نگیں کر لیا‘‘۔ عدالت میں بھارت نے ان شواہد کو ماننے سے انکار کردیا حالانکہ پاکستان نے یہ تمام شواہد برطانوی ریکارڈ سے حاصل کیے تھے۔ بھارت نے لندن میں انگلش ہائی کورٹ میں زور دیا کہ نظام ہفتم نے اس رقم کو منتقل کیے جانے کے چند دن بعد ہی اِس کی واپسی کا مطالبہ کر دیا تھا‘‘۔ مقدمہ کی سماعت کے بعد انگلش ہائی کورٹ کے جج ہینڈرسن جے نے ریاست حیدر آباد کے تین کروڑ پچاس لاکھ پاونڈ کے ’’حیدرآباد فنڈ‘‘ پر پاکستان کے دعوے کے خلاف بھارتی درخواست مسترد کردی اور 75 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میںنے لکھا کہ ’’یہ تصور کرنا بالکل بے وقوفی پر مبنی ہو گا کہ بھارت کے قبضے کے بعد نظام نے یہ مطالبہ اپنی مرضی سے کیا ہو گا‘‘۔ جج ہینڈرسن جے نے لکھا کہ ’’بھارت برطانوی عدالت میں یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ’پاکستان کا موقف کمزور ہے اور تین کروڑ پچاس لاکھ پاونڈ پر پاکستان اپنا قانونی حق ثابت نہیں کر سکا جو 20 ستمبر 1948ء سے ہائی کمشنر آف پاکستان کے نام سے بینک میں موجود ہیں، پاکستان کے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد موجود ہیں جن پر سماعت کے دوران بھرپور طریقے سے غور کیا گیا، پاکستان کے موقف کی حمایت میں قانونی دلائل بھی بہت مضبوط تھے‘‘۔ اگرچہ حیدر آباد فنڈ کے اصل حقدار کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، تاہم عدالتی فیصلے سے یہ واضح ہوگیا کہ اس مقدمے میں پاکستان بھی ایک فریق ہے اور پاکستان کو اس سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب بھارت کو اپنی درخواست رد ہونے کی وجہ سے عدالتی چارہ جوئی کے اخراجات کی مد میں بھی پاکستان کو بھاری رقم ادا کرنا پڑے گی۔

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن