لندن (آن لائن+ بی بی سی + آئی این پی)برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا اس سے الگ ہونے کے فیصلے پر آ ج جمعرات کو ریفرنڈم ہو گا۔ ریفرنڈم سے پہلے لندن کے ویمبلی ایرینا میں مباحثہ بھی ہوا۔سوالات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، معیشت، امیگریشن، اور برطانیہ کی خودمختاری۔’لیو‘ یعنی ’یورپی یونین چھوڑ دو‘ کی جانب سے مباحثے کے شرکاء میں لندن کے سابق میئر بورس جانسن بھی شامل ہوئے جبکہ ’ریمین‘ یا ’یورپی یونین کا حصہ بنے رہو‘ کی طرف سے دوسروں کے علاوہ جانسن کے جانشین صادق خان نے حصہ لیا۔ یورپی یونین سے الگ ہونے کی حامی مہم کی نمائندگی بورس جانسن، لیبر کی جانب سے رکنِ پارلیمان گیسلا سٹوارٹ اور توانائی کی وزیر اینڈریا لیڈسم نے کی۔یورپی یونین کا حصہ بنے رہنے کی حامی مہم کے نمائندہ صادق خان، سکاٹ لینڈ کی کنزرویٹیو رہنما روتھ ڈیوڈسن، اور ٹریڈ یونین کانگریس کے جنرل سیکرٹری فرانسس او گریڈی تھے۔ بحث کے دوران روتھ ڈیوڈسن کی بورس جانسن کے ساتھ کئی دفعہ تکرار ہوئی ۔جانسن جب اپنے اختتامی کلمات کہنے کے لیے آئے تو ان کے حامیوں نے کھڑے ہو کر ان کی پذیرائی کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لے تو ’جمعرات ہمارا یومِ آزادی ہو سکتا ہے۔ڈیوڈسن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ انھیں ’سو فیصد یقین ہے‘ کہ برطانیہ الگ ہونے کے حق میں ووٹ نہیں دے گا۔حالیہ اور سابقہ میئروں کے درمیان خوب تکرار ہوئی اور صادق خان نے اپنے پیش رو بورس جانسن پر الزام لگایا کہ انھوں نے یورپی یونین کے تجارت کو پہنچنے والے فوائد کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لیے ہیں۔ الگ ہونے کے حامی نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔یورپ کو طلاق دینے کی گھڑی آگئی ۔ ریفرنڈم میں عوام سے سوال پوچھاجائیگاکہ آیابرطانیہ کویورپی یونین میں رہنا چاہیے یانہیں۔ حکمراں اوراپوزیشن جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ میں بھی اسی معاملے پر پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ مقتول رکن پارلیمنٹ جوکاکس یورپی یونین سے تعلق جڑارہنے کی حامی تھیں،کاکس کے شوہرکہتے ہیں کہ انکی بیوی کوسیاسی نظریات کی وجہ سے قتل کیاگیا۔میں لندن کے مئیرصادق خان نے سابق مئیرکو خوب سنائیں اورکہاجھوٹ بول کرخوف کاماحول نہ بڑھائیں۔آپ لوگوں کوخوفزدہ کررہے ہیں کہ وہ یورپی یونین چھوڑنے کیلیے ووٹ ڈالیں،ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے نہیں جارہا۔بورس، آپ جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ آپ نے ٹیکس دہندگان کی رقم سے پملفٹ چھپوالیے ہیں کہ ترکی یورپی یونین میں شامل ہورہاہے۔ایک نقشہ جس میں ترکی کوسرخ دکھایاگیاہے،مگرجوممالک دکھائے گئے ہیں وہ شام اورعراق ہیں۔یہ ڈرانے کیلیے ہے،بورس ،اس پرتمھیں شرم آنی چاہیے۔یورپی یونین سے علیحدگی کے ریفرنڈم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ برطانیہ میں کچھ حلقوں کے نزدیک ملک کی خودمختاری،دفاع ،معیشت اور نوکریوں پریورپی ممالک قابض ترہوتے چلے جارہے ہیں۔فیصلہ کرنا پڑیگاکہ مستقبل کے ساتھ ہو۔اس حوالے سے مختلف سروے کہتے ہیں کہ بحث اپنی جگہ،یورپ اوربرطانیہ کی طلاق کیفی الحال آثارنہیں۔لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمان خالد محمود اور کنزرویٹو پارٹی کے سینیئر رہنما سعید ہ یورپی یونین کو چھوڑنے کی مہم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ لارڈ طارق احمد کا کہنا تھا کہ لیو مہم میں کچھ لوگوں نے ایسے بیانات دیئے ہیں ۔ ان کے بقول دہشت گردی کے واقعات کو بے قابو امیگریشن کا نتیجہ قرار دیا گیا جس کا مقصد صرف لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کر نا تھا ۔ یورپی یونین سے نکلنے کی حامی مہم کے سینیئر رہنما اور برطانوی وزیر برائے خارجہ جیمز ڈڈرج نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہم نے ہمیشہ اس طرح کی غلطیاں کی ہیں ۔ اور اسے لیے وہ پرانی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے ۔ جیمز ڈڈرج سے دو بار یہ سوال اس لیے پوچھا گیا کہ شاید وہ اپنی مہم کے کچھ لوگوں پر لگنے والے ان الزامات کی وضاحت کریں گے جن میں مسلمانوں کی مائیگریشن کو شدت پسندی میں اضافے سے جوڑا گیا اور یا شامی پناہ گزینوں کے بارے میں یو کے انڈیپنڈنس پارٹی کے اس ’ متعصبانہ ‘ پوسٹر کی وضاحت کریں گے جس کے باعث یورپ سے نکلنے کی کمپین میں شامل واحد سینیئر مسلمان اور خاتون سیاستدان سعیدہ وارثی خود کو اس مہم سے الگ کرنے پر مجبور ہوئیں ۔ لیکن جیمز کا جواب امیگریشن کی مخالفت پر شروع اور اسی پر ختم ہوا۔ جمعرات کو ہونے والے ریفرنڈم میں چار کروڑ 60 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں ۔ ووکروں کا قائل کرنے کی آخری کوششیں رات گئے جاری رہیں ۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا فیصلہ ناقابل واپسی ہوگا اور اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ واپس نہیں ہو سکے گا ۔ آپ اڑتے جہاز سے چھلانگ مار کر واپس کوک پٹ سے جہاز میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ اس پوری مہم کو ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ لفظ ہوگا ’ اکٹھے ‘ ۔ ہم اکٹھے دہشت گردی اور موسمی تبدیلی کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکیں گے ۔ اپنی معیشت کو بہتر بنا سکیں گے ۔ ادھر سروے کے مطابق 45 فیصد شہری ’’ لہو ‘‘ اور یورپی یونین میں رہنے کے حق میں 44 فیصد ہیں ۔ نیٹو چیف جینز سٹولٹنبرگ نے کہا دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے برطانیہ کا یورپی یونین میں رہنا ضروری ہے ۔