ہر جمعتہ الوداع کو یوم القدس مناتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل ایک دو دن میں نہیں' کامل 70 برس پہلے اعلان بالفور کے بعد 1948 میں قائم کیا گیا تھا عربوں نے اپنی زمینیں یہودیوں کو بیچیں پھر ہر جنگ میں اسرائیل سے شکست کھائی جب سے لاکھوں مظلوم فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ان کی مادر وطن 'انبیاءکی مقدس ارض فلسطین پرعالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ساری دنیا کے یہودیوں کو درآمد کر کے اسرائیلی غاصب ریاست قائم کی گئی۔ یہ مسئلہ 70 برس بعد بھی پوری انسانیت اور عالمی قوانین کے علمبردار اداروں 'مسلمان خلیجی ریاستوں کی منافقانہ سرد مہری پر سوالیہ نشان ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے بابصیرت قائدین نے امت کو درپیش ہر مسئلہ میں ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے مسئلہ فلسطین پر اپنا واضح اور دوٹوک موقف پیش کرکے اس مسئلہ کو عالمی ایوانوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ریاستِ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص امت مسلمہ کے مسائل کے حوالے سے لائحہ عمل کا تعین کیا۔ پاکستان فلسطین پر صہیونی قبضہ اور اس حوالے سے برطانیہ و امریکا کے کردار کی ہمیشہ سے زبانی کلامی شدید مذمت کرتا رہا ہے۔ یہ شرمناک حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک اور عرب ریاستیں اسرائیل کے ناجائز وجودِ نامسعود کو ادنیٰ مفادات کےلئے تسلیم کرچکے ہیں لیکن پاکستانی ریاست اور عوام آج بھی قائد اعظم کے متعین کردہ لائحہ عمل پر کاربند ہیں اور اسرائیل کے غاصب وجود کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
اب مدتوں سے امام زمان 'امام خمینی کی اپیل پر دنیا بھر میں رمضان المبارک کا آخری جمعہ' جمعتہ الوداع یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امام خمینی نے سقوط یروشلم کو ''یوم القدس'' کے طور پر منانا شروع کیا تھا تاکہ مسلم امہ کو یاد دلایا جا سکے کہ قبلہ اول بیت المقدس کو صہیونیوں کے قبضے سے آزاد کرانا ہر مسلمان کلمہ گو کا مقدس دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے رمضان شریف کے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیتے ہوئے تہران میں اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینیوں کے سپرد کرکے اسرائیل کے خلاف امت کے لائحہ عمل کااعلان کیا تھا اسرائیل ایسی نظریاتی ریاست ہے جسے "مذہبی جمہوریہ" قرار دیا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں اسرائیل نے سقوط القدس الشریف کو 'یوم ملاپ' کے طور پر منایا تھا کہ بیت آلمقدس پر صہیونی قبضے کو نصف صدی پوری ہوئی ہے۔ مشرق وسطی میں یوم قدس صرف لبنان اور شام تک محدود ہو گیا ہے باقی کسی کو نہ قبلہ اوّل یاد ہے نہ مظلوم فلسطینی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ مشرقی وسطی میں برادر مسلم ممالک میں اسلام کبھی تعلقات کا محور نہیں رہا بلکہ معاشی مفادات اور شخصی اور خاندانی اقتدار کا تحفظ ہی ہمیشہ اولین ترجیح رہے ہیں۔ آبروئے رسالت پرساری ایرانی قوم کو نچھاور کردینے کا عزم رکھنے والے امام زمان خمینی کون تھے؟
انہوں نے ملعون رشدی کے خلاف قتل کا فتوی کیوں دیا تھا نئی نسل کے لئے ان تاریخی حقائق کو بار بار دہرانا نا گزیر ہو چکا ہے۔ امام خمینی نے جب گستاخ رسول، سلمان رشدی ملعون کے قتل کا فتویٰ دیا تھا تو علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے امام خمینی سے کہا تھا کہ "آپ کا فتویٰ عالمی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ ملعون رشدی ایرانی باشندہ نہیں' برطانوی شہری ہے آپ ایران میں بیٹھ کر قتل کا فتویٰ دے رہے ہیں جس سے ایران کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی لہذا آپ فتویٰ واپس لیں یا پھر اسے ذرائع ابلاغ کو جاری نہ کیا جائے اسے آپ کی توضیع مسائل میں لکھ دیا جائے لیکن ریڈیو اور ٹی وی پر نشر نہ ہو۔
امام خمینی نے جواب دیا کیوں؟ تو کہا گیا کہ اس کی بہت مہنگی قیمت ہمیں چکانا پڑے گی۔ امام نے پوچھا کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ بتایاگیا وہ ہم سے تعلقات توڑ لیں گے۔ اور کیا کریں گے؟ اپنے سفیر واپس بلا لیں گے، اور کیا کریں گے؟ بائیکاٹ کر دیں گے، پابندیاں لگا دیں گے اور کیا کریں گے؟ کہا شاید ہمارے اوپر حملہ کر دیں، امام خمینی نے کہا اور کیا کریں گے؟ کہا کہ شاید ہمیں ختم ہی کر دیں! ایران ختم ہو جائے گا، تو امام خمینی نے جواب دیا تھا کہ ”بنا نیست کہ ایران بماند، بنا این است کہ اسلام بماند“
”ہمارا ہدف یہ نہیں ہے کہ ایران بچائیں اور اسلام قربان کر دیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اگر ایران قربان ہوتا ہے تو ہو جائے ہم اسلام کو بچا لیں رشدی نے اسلام پر حملہ کیا ہے اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران پر حملے کے ڈر سے میں چپ رہوں۔ میں کیسا فقیہہ ہوں، میں کیسا مرجع تقلید ہوں، میں کیسا رہبرِاسلام ہوں کہ اسلام پر حملہ ہو جائے تو میں چپ ہو جاو¿ں لیکن ایران پر حملہ ہو تو میں بول پڑوں! پھر تو میں فقیہ اسلام نہیں بلکہ فقیہ ایران ہوں۔
یہی امام خمینی تھے جنہوں نے جمعتہ الوداع یوم القدس کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی، اسرائیل نے درندگی اور وحشت کی تاریخ رقم کی ہے، کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا۔۔۔ دخترانِ فلسطین کو پائمال کیا گیا سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ نے ہر باضمیر انسان کو ہلا کر رکھ دیا۔ غزہ کے یہ دلدوز مناظر، خون آشام داستانیں، روح فرسا کہانیاں، گولیوں سے چھلنی لاشیں، بہتے لہو کی ندیاں۔۔۔ یہ ا±جڑتے سہاگ، معصوم یتیم بچے، یہ تاراج بستیاں، برباد کھیت و کھلیان، ٹوٹی سڑکیں، ا±داس یونیورسٹیاں اور خوف و، وحشت کا راج۔۔۔ یہ دن، مہینہ اورایک برس کا قصہ نہیں 70 برس پر محیط داستان الم ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تھا۔ ۔۔
جنگ ختم ہونے کے بعد برطانیہ نے "اعلان بالفور" میں نومبر 1917ءکو سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی وطن عطا کرنے کا وعدہ کیا۔ اور اس کے مدتوں بعد 15 مئی 1948ءکو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ءمیں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی چنانچہ ستمبر 1975ءمیں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اور فلسطینی لبنان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتا۔ اسرائیل نے لبنان کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ لبنان میں اسرائیل کو 2006ءکی جنگ میں حسن نصراللہ کی حزب اللہ نے شکست فاش سے دوچار کرکے ناقابل تسخیر ہونے کا پراپیگنڈہ تار تار کرکے رکھ دیا۔
آج مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے نئی صف بندیاں ہورہی ہیں دینِ مبین کے لئے نہیں' ادنیٰ سیاسی مفادات اور خاندانی اقتدار کے لئے تل ابیب کی طرف ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں اور اس دورِ زوال میں آبروئے رسالت پرساری ایرانی قوم کو نچھاور کردینے کا عزم رکھنے والے امام خمینی یاد آتے ہیں جب یوم القدس مناتے ہیں۔
یوم قدس:نصف صدی کی داستان الم
Jun 23, 2017