خیبر پی کے میں فخر زمان کے گا¶ں میں ان کے نام پہ سکول بنانے کا فیصلہ
یوں تو جب سے ٹیم واپس آئی ہے ملکی اور غیر ملکی اداروں کی طرف سے انہیں پے در پے انعامات سے نوازنے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ کوئی زمین دے رہا ہے کوئی گھڑی۔ کوئی ملازمت میں ترقی دے رہا ہے تو کوئی گاڑی۔ مگر ان میں سب سے اچھا تحفہ خیبر پی کے میں وہاں کے وزیر تعلیم عاطف خان نے فخر زمان کے گا¶ں میں ان کے نام پر سکول قائم کرنے کا دیا ہے۔ یہ قیمتی گھڑیاں‘ کاریں‘ مکان‘ بنگلے زمینیں سب یہاں رہ جائیں گی۔ ان کی بہار ایک خاص مدت تک ہے۔ مگر جو سکول فخر زمان کے نام سے بنے گا وہ ہمیشہ ان کی اور انکے کارناموں پر یاد دلاتا رہے گا۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ حکومت چیمپئنز ٹرافی جیت کر آنےوالے ان تمام کھلاڑیوں کے آبائی علاقوں میں ان کے ناموں کی ایک ایک ڈسپنسری اور ایک ایک سکول قائم کردے جو ان کی یاد تادیر دلاتے رہیں یا پھر ان کے علاقوں میں سڑک بنا کر ان کو خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے جو عوام کیلئے بھی باعث رحمت ہو گی اور ان لوگوں کو بھی مدتوں یاد رکھا جائیگا۔اس وقت ہمارے سارے کھلاڑیوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ لوگوں نے‘ اداروں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے اسلئے انہیں اب نہایت احتیاط کرنا ہو گی۔ کامیابی حاصل کرنا بہت آسان ہے مگر اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے کھلاڑی اپنی یہ کامیابی کیش کرا چکے اب انہیں مستقبل کی فکر کرنی ہو گی تاکہ وہ آئندہ بھی اسی طرح قوم کی دعائیں اور انعامات سمیٹتے رہیں۔ یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں بس اتحاد اور جیت کی لگن کے ساتھ انہیں ہر میدان میں اترنا ہو گا تو کامیابی ہمیشہ ان کے قدم چومے گی۔ لوگ سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
ہندو دہشت گرد نہیں۔ مسلمان زیادہ تر واقعات میں ملوث نکلے۔ بھارتی وزیر
خوشامد اور وزارت پکی کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ ہریانہ کے وزیر نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف گھٹیا الزام لگا کر انتہا پسند مسلم دشمن مودی حکومت کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر تو مودی حکومت بھی شرمسار ہو رہی ہو گی۔ مسلمانوں کے میدان میں آنے سے پہلے ہی کانگریس پارٹی کے ایک رہنما نے ہریانہ کے وزیر صحت کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں عام ہندو دہشت گرد نہیں ہوتے مگر جن سنگھی اور راشٹریہ سیوک سنگھ والے یعنی بی جے پی اور اس کے اتحادی البتہ سب کے سب دہشت گرد ہیں۔ بات تو بالکل سچ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کے واقعات میں یہی جماعتیں ملوث ہیں۔ جہاں کہیں مسلم کش فسادات ہوتے ہیں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ ان کی قیمتی املاک جلائی جاتی ہیں ان کے پیچھے انہی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ملتا ہے۔ کیا گودھرا ہو یا گجرات۔ سمجھوتہ ایکسپریس یا ملیام کے دیہات ہر جگہ مسلم کش فسادات اور گاﺅ رکھشا کے مسئلہ پر آئے روز مسلمانوں کے قتل عام کے بعد بھی کسی مزید ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے سے پہلے کاش انہوں نے بھارت کے اندر ہی نظر ڈالی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ مسلمانوں کی تو بات چھوڑیں‘ ان بدبخت ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں نہ کوئی دلت محفوظ ہے نہ کوئی عورت۔ اب تو بھارت کی ناریاں گائے کا ماسک پہن کر لوگوں کو متوجہ کرتی پھرتی ہیں کہ جتنی توجہ لوگ گائے کی رکھشا پر دیتے ہیں اتنی یہ توجہ اگر لوگ ناریوں کو بچانے پر دیں تو ان کے ساتھ بلاتکار‘ تشدد اور قتل کی وارداتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
وزیراعلیٰ بغیر پروٹوکول ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور پہنچ گئے۔ ڈی ایم ایس معطل
وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ نہ تو وہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کو بیٹھنے دیتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو ہر وقت کام کام اور صرف کام ہوتا ہر جگہ نظر آئے۔ وہ کسی کی سستی اور کاہلی برداشت نہیں کرتے۔ اوپر سے انکے یہ اچانک درد سر قسم کے دورے علیحدہ سرکاری افسران کو ”وختے“ میں ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کا پتہ نہیں ہوتا کہ کب میاں صاحب کہاں اچانک آ دھمکیں اور سرکاری ملازمین و افسران کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے۔ کچھ ہو نہ ہو یہ افسران البتہ سولی پہ لٹکے رہتے ہیں۔ چلیں اس طرح پنجاب کی حد تک تو سرکاری افسران اور ملازمین الرٹ رہتے ہیں کہ نجانے کب اور کس وقت وزیراعلیٰ اچانک چھاپہ مارنے آن دھمکیں۔ چھوٹے عملے کی بات چھوڑیں بڑے افسران دل ہی دل میں انکے نہ آنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اب گذشتہ روز قصور میں وزیراعلیٰ نے جس طرح ایم ایس کی غیر موجودگی میں ڈی ایم ایس کو ہسپتال میں غیر حاضر پایا تو فوراً کھڈے لائن لگا دیا۔ باقی عملے کو صرف تنبیہ کی نظروں سے دیکھا جسے وہ سب سمجھ گئے۔ اگر باقی صوبوں کے وزراءاعلیٰ بھی نمائشی بیانات اور اعلانات کی بجائے اسی طرح شہبازی چھاپوں کا طریقہ اپنائیں تو وہاں بھی دور دراز علاقوں کے عوام کو اطمینان کا احساس ہو گا کہ ہمارا وزیراعلیٰ کم از کم بیدار تو ہے جس کا اثر کام چور سرکاری افسروں پر اچھا پڑیگا اور وہ بھی بیدار نظر آئینگے۔
٭٭٭٭٭٭
لاہور میں اے سی بس سٹاپ پروگرام کا آغاز
خدا کرے یہ پروگرام جاہل لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہے اور یہاں دن رات چرسی اور نشئی لوگ ٹھنڈے ٹھار ماحول میں ڈیرے ڈالنے نہ لگیں۔ پہلے بھی لاہور میں خوبصورت قسم کے بس سٹاپ بنائے گئے جو انتظامیہ کی لاپروائی کے سبب آہستہ آہستہ اپنی خوبصورتی اور بنچوں تک سے محروم ہو گئے۔ اب خدا کرے یہ خوبصورت اے سی بس سٹاپ عوام کےلئے باعث رحمت بنیں۔ عوام الناس کی اکثریت بسوں اور ویگنوں پر سفر کرتی ہے۔ سب کے پاس گاڑی یا موٹرسائیکل نہیں ہوتی حکومت ایک طرف میٹرو بس اور اورنج ٹرین پر سارا بجٹ لگا رہی ہے وہ بسوں اور ویگنوں کی تعداد بڑھا کر بھی عوام کو سفری سہولتیں مہیا کر سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مسافروں کی سہولتوں میں اضافہ حکومت کے فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی یہ نیا نیا کلچر آ رہا ہے تو اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس قسم کی سہولتوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
یہ نہ ہو کہ یہ خوبصورت شیشے اور اے سی کے ساتھ ان سٹاپوں کے بلب اور بنچ بھی لوگ اٹھا کر بطور یادگار ساتھ لے جائیں۔ فی الحال تو یہ اے سی بس سٹاپ لاہور کینٹ میں کھولے جا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا دائرہ پورے لاہور تک پھیلایا جائے گا۔ دوسرے شہروں میں اگر یہ فوری طور پر ممکن نہیں تو کم از کم وہاں کے فلتھ ڈپو بنے بس سٹاپوں کی صفائی تو کرائی جا سکتی ہے تاکہ صاف ستھرے بس سٹاپوں میں مسافر دھوپ اور بارش کے ساتھ ساتھ سردی سے محفوظ رہ سکیں۔ ورنہ یہ بس سٹاپ تو کچرادان بنے ہوئے ہیں یا نشئی لوگوں کے ڈیرے....
٭٭٭٭٭٭