برطانوی اور ہندوﺅں کی غلامی سے نجات کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم اور اقبال کی قیادت میں جو طویل مگر فعال جدوجہد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس جدوجہد آزادی کے نتیجے میں بالآخر اگست 1947ءکو دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اور اس سے پہلے اس تحریک میں بہت سے زعماءنے اہم کردار ادا کیا۔ اسی پس منظر میں حمید نظامی نے نوائے وقت کی بنیاد رکھی تو مجید نظامی نے اس پودے کی آبیاری میں اپنی تمام عمر صرف کی اور 26 جولائی 2014ءکو اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک وطنِ عزیز کے دشمنوں کے خلاف شمشیر برہنہ کا کردار ادا کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ دنیا بھر میں اس پاک وطن سے محبت کی ٹھوس علامت بن کر ابھرے۔ ان کی دوستی اور دشمنی کا یہی معیار تھا کہ جو فرد یا رہنما پاکستان اور کشمیر کے ساتھ مخلص تھا وہ ان کے نزدیک محترم تھا اور اس کے الٹ خیالات کا حامل ان کے نزدیک کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا اور یہ معاملہ اتنی پختہ شکل اختیار کر گیا تھا کہ خود بھارت کے موثر ترین سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے حلقے بھی پاکستانی عوام کی حقیقی سوچ کا مطالعہ کرنے کے لئے ہمیشہ نوائے وقت خصوصاً اس کے ادارتی صفحات کا مطالعہ کرتے تھے۔
دوسری جانب پاک کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں ذلت آمیر شکست کھانے کے بعد بھارتی صوبے ”مدھیہ پردیش“ اور ”راجستھان“ سمیت کئی جگہوں پر جس طرح مسلمانوں کو جنونی ہندوﺅں نے تختہ مشق بنایا ہے وہ اپنے آپ میں انڈین سیکولر دعووں کی منہ بولتی تصویر ہے۔ علاوہ ازیں انسان دوست حلقوں نے پاکستان کی فتح کے بعد بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں کشمیریوں پر ظلم و تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صرف پاکستان سے محبت کے ”جرم بے گناہی“ میں کشمیریوں کو قابض بھارتی فوج کی جانب سے اس قدر غیر انسانی مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف کسے معلوم نہیں کہ بھارتی صوبے آسام میں ”نیلی“ کے مقام پر 18 فروری 1983ءکو محض چھ گھنٹوں کے اندر 2191 مسلمانوں سے زندہ رہنے کا بنیادی حق چھین لیا گیا تھا۔ بظاہر یہ ایسی بات ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا مگر آفرین ہے ”ہندوستان“ پر کہ اس کی تاریخ ایسے اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یاد رہے کہ ”رادھا کانت“ نامی ایک ہندو دانشور نے چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ کشمیر (مقبوضہ) میں آئے روز بے گناہوں کو جان سے مار دینا معمول کی بات ہے اور بالعموم کچھ روز گزرنے کے بعد ان واقعات کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔
اس معاملے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مبصرین نے انکشاف کیا ہے کہ آسام کے 14 دیہات ”علیسنگھا، کھلا پتھر، بسُندھری، بغدُبا بیل، بورجلا، بنٹنی، اِندر ماری، بغدُبا ہبی، ملادھاری، متی پربت، متی پربت نمبر 8، سبہتا، بوربری اور ”نیلی“ میں اس وقت قیامت بپا ہو گئی جب صبح کے تقریباً 9 بجے جنونی ہندو گروہوںنے اچانک مسلمان اکثریتی علاقوں پر دھاوا بول دیا اور چند گھنٹوں کے اندر ان علاقوں سے تمام مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یاد رہے کہ آسام میں ان دنوں بھی یہ تحریک خاصے زوروں پر تھی کہ آسام کے تمام وسائل پر بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان پناہ گزینوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس تحریک کی پُشت پر ”آسام گن پریشد“ نامی تنظیم تھی جس کی روحِ رواں ”پرفُل کمار مہنت“ نامی ایک طالبِ علم سٹوڈنٹ لیڈر تھا جو بعد میں آسام کا وزیراعلیٰ بھی بنا۔اس تحریک کے بنیادی محرکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش سے آئے چالیس لاکھ پناہ گزینوں کو عارضی طور پر بھارتی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ انتہا پسند ہندوﺅں نے ”ULFA“ (یونائیٹد لبریشن فرنٹ آف آسام) اور ”بوڈو لینڈ فرنٹ“ کے زیرِاہتمام کانگرس کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں کو کسی صورت آسام میں بسنے نہیں دیں گے۔ یاد رہے کہ انڈین ایکسپریس کے ”ہمندر نارائن“ آسام ٹربیون کے ”بیدبراتا لاہکر“ اور اے بی سی نیوز کے ”اجے شرما“ اس نسل کشی کے عینی شاہد تھے اور انہوں نے اپنے اخبارات میں اس معاملے کی پوری تفصیلات بیان کیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ اپنی نوعیت کی سب سے بھیانک نسل کشی تھی۔دوسری جانب یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں دہلی کے حکمرانوں کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کی نسل کشی بھی روزمرہ کا معمول ہے۔ آئے روز پیلٹ گنوں کے ذریعے ان سے بینائی چھینی جاتی ہے۔ ایسے میں ان کی بے نور نگاہیں متنظر ہیں کہ شاید سویا ہوا عالمی ضمیر اپنے ہونے کا کچھ تو ثبوت دے۔