کیا حسن اتفاق ہے کہ اپنی بے لوث سیاسی خدمات پر قوم سے بابائے جمہوریت کا لقب پانے والے خلد آشیانی نوابزادہ نصراللہ خان نے جمہوری اقدار کی بحالی کے حوالے سے جو بات نظم میں کہی تھی وہی بات سپریم کورٹ نے نثر میں بیان کر دی ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کی ناگفتہ بہ صورتحال میں تسلسل کے برقرار رہنے کی نشاندہی ہوئی ہے بلکہ اس واقعہ نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد کو بھی تازہ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس گلزار احمد نے کراچی رجسٹری میں شہر کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے کہ پورا کراچی کچی آبادی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ملک صرف دعاﺅں سے نہیں چل سکتا، ایسا ہوتا تو افغانستان، عراق اور شام کا یہ حال نہ ہوتا، اس حوالے سے انہوں نے یہ بھی کہا کہ خدا کیلئے قدرت سے مت چھیڑ چھاڑ کریں، یہی مبنی برحقیقت باتیں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ نے ایسے وقت میں نظم کی تھیں جب پاکستان پر جنرل ضیاءالحق نے جمہوری اقدار کا گلا گھونٹے کی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان بحالی¿ جمہوریت کی جدوجہد کرنے کے جرم میں اپنے ہی گھر خان گڑھ میں نظربند تھے کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی پارٹی کے دفتر واقع لاہور نکلسن روڈ پر آفس سیکرٹری خواجہ اظہار مرحوم کو اپنی نظم بھیجی تھی۔ نظم کے شعر تھے....
غارت گری¿ اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
یا کوئی بلا صرف دعاﺅں سے ٹلی ہے
یہ صدا نثر میں بلند کی جائے یا نظم میں سنائی جائے اس کا منتہا اور مقصد صرف ایک ہے جس کی وضاحت مسٹر جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس میں اس فقرے سے ہوتی ہے کہ قدرت سے مت چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ اسی ایک فقرے میں مطالب پوشیدہ ہیں، یقیناً قیادتوں کے حریصانہ عزائم ہی کے نتیجے میں عراق، شام اور افغانستان ایسے مسلم ممالک مشیت ایزدی کی لپیٹ میں آئے۔ ایسی صورتحال سے قوم اور ملک کو بچانے کےلئے لازمی ہے کہ مسلمہ جمہوری اصولوں کے مطابق نظام مملکت کو اس نہج پر ڈالا جائے جس کی خاطر ملک کا قیام عمل میں آیا تھا، جو بانیان پاکستان منتہائے مقصود تھا اور قوم بالخصوص خط غربت سے نیچے کی لکیر تک زندگی بسر کرنےوالے کروڑوں خاندان ایسے دن کا سورج طلوع ہونے کی امید پر زندہ ہیں۔ مقام شکر ہے کہ ملک کے سیاسی، اقتصادی اور معاشی بدحالی کے بدترین دور میں مروجہ آئین کے تحت قائم اداروں کی طرف سے آس و امید کے حوصلہ افزا عزائم کا اظہار باد سموم میں ٹھنڈے جھونکوں کا کام دے رہا ہے۔ ایسے حقائق سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ ارض وطن کے مایہ ناز قومی سلامتی اور قابل فخر عدلیہ کے ادارے ملک و قوم کی بھلائی، بہتری اور ترقی کے حوالے سے فوری طرح عملی اور فکری طور پر ہم آہنگ اور ہم آواز ہیں یقیناً اس کا تمام تر کریڈٹ ملک کے مروجہ آئین کو دیا جاتا ہے جو ان قومی اور ملکی اداروں کو نہ صرف آئینی ڈھال فراہم کرتا بلکہ انہیں قانونی طور پر بااختیار بناتا ہے۔ آئین ہی کی بدولت انہیں وہ زبان ملی ہے جو اس ملک کے کروڑوں بے بس، بے نوا اور محروم عوام کے دلوں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے۔ جیسا کہ ملکی سلامتی کی خاطر ہر کڑے سے کڑے آزمائش کے وقت میں قوم و ملک کے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے والے ادارے کے سربراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کا دورہ کیا اور اس دوران میں انہوں نے قومی سلامتی وار کورس کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے جہاں اور بہت سی باتیں کیں وہاں اہل وطن کیلئے یہ پتے کی بات بھی کہی کہ ہمیں ایسے پاکستان کیلئے کوشش کرنی ہے جہاں قانونی کی حکمرانی ہو اور حقوق کے حصول کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کےلئے جوش و جذبہ پایا جاتا ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دن کے اجالوں کے مصداق یہی وہ حقیقتیں ہیں جن کے عملی جامہ پہننے کے بعد ملک میں معاشی عدل و انصاف برپا ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور قوم میں ایسا اجتماعی شعور خود بخود عود آئے گا جو قوم و ملک کو در پیش تمام چیلنجوں کا موثر مقابلہ کرنے پر منتج ہوگا مگر ایسے منصفانہ ماحول سے عبارت معاشرے کے قیام کیلئے اولین شرط یہ ہے کہ ملک میں حقیقی معنوں میں قانون و انصاف کی حکمرانی ہو، وی آئی پی پروٹوکول حرف غلط کی طرح معاشرے سے مٹ جائے۔ مسلمان ہونے یا اللہ کا بندہ ہونے کی حیثیت سے موت کا ایک دن متعین ہے پر کامل یقین، ایمان ہو تو پھر موت سے فرار کی خاطر ایسے افراد سے عبارت سکیورٹی سکواڈ چہ معنی دارد؟ جو خود موت کے سائے میں ہوں۔ بلاشبہ آہنی ادارے چیرہ دستیوں کی حرص و ہوس کے ہاتھوں غریب و مفلسی کے بدترین دور میں شاہراہ حیات پر سسکتے ہوئے کروڑوں خاندانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں جو چرکے لگے ان کا اندازہ لگانا کسی بھی ایسے مو¿رخ کے بس کی بات نہیں جو اپنی خواہشات کا شکار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے لوازمات سے یکسر محروم کروڑوں عوام کو جن آئینی اداروں سے آنیوالی صدائیں مژدہ جانفزا محسوس ہو رہی ہیں، آہنی اداروں کے بارے میں عوام کیلئے دل دکھانے والی باتیں سنی جا رہی ہیں۔ انہیں مختلف ناموں سے پکارا جا رہا ہے۔ عام آدمی کو فاقوں ہی سے فرصت نہیں۔ دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے۔ بھوک، ننگ اور مفلسی کی تلخیاں لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ایسے کروڑوں عوام کو کیا معلوم احتساب کیا ہے۔ مواخذہ کس بلا کا نام ہے۔ احتساب کے نام اور مفہوم و مطالب سے وہی لوگ آشنا ہو سکتے ہیں، جنہیں مفلس و قلاش لوگوں کا خون چوسنے اور ملکی وسائل کی لوٹ مار سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا چسکا لگ چکا ہو۔ درحقیقت یہی وہ طبقہ ہے جس سے منسلک نام نہاد لیڈران قوم احتساب کے نام سے چڑتے اور خوف کھاتے ہیں، ایسا کیوں ہے ایسے رازوں سے پردہ اٹھنے میں کچھ وقت درکار ہو گا۔
یہ بات بھی باعث اطمینان ہے کہ بعض سیاسی مقتدروں کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے فوج کو پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر تعینات کرنے کے سمیت بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل کی نگرانی کا کام سونپ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ایسے اقدامات سے اب کے عام انتخابات صاف اور شفاف ہونے کی ضمانت مہیا ہو گی تاہم ملک کے اکثر و بیشتر حلقوں میں اس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے جوابات کا انہیں اتنظار رہے گا کہ اس وقت بھی قومی احتساب بیورو اور عدالت عالیہ کی طرف سے بڑے بڑے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی چھان بین کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب بیورو میں بھی جن اداروں کے معاملات اور اس حولے سے سابق ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کے کچھ ارکان سے بھی پوچھ گچھ ہو رہی ہے ایسے اداروں میں پنجاب حکومت کی قائم کردہ مختلف ناموں سے قائم چھپن کمپنیاں، لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نندی پور پاور پروجیکٹ سمیت پیرا گون سٹی، ترقیاتی ادارہ لاہور ایسے ادارے بھی شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ہیں جنہیں متعلقہ اداروں میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے سلسلے میں نیب میں بلایا گیا ہے۔ ایسے بعض ارکان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ نیب کی طرف سے متعلقہ معاملات پر ہونے والی تحقیقات زیر التوا ہیں۔ ایسے میں ان کو عام انتخابات حصہ لینے کی اجازت دینا کہاں تک مناسب ہوگا؟ یہ خیال زبان زد عام ہے کہ بعض سرکاری کمپنیوں میں مالی بے ضابطگیوں کے معاملے کو نیب کی طرف سے انتہائی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے کیونکہ ان کمپنیوں میں مبینہ طور پر اربوں روپے کے گھپلوں کے امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے پھر یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پنجاب حکومت کی قائم کردہ 56 کمپنیوں میں سے درجن سے زائد کمپنیوں کے حسابات نیب کو پیش کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔