مثبت اقدامات کی ضرورت

شبانہ نواز

پاکستان میں ویمن کرکٹ کا سفر 1996 میں اس وقت شروع ہوا جب دو بہنوں شازیہ اور شرمین خان نے اسکی داغ بیل ڈالی۔ پاکستان کی نیشنل ویمن ٹیم تھی جس نے 1997 میں آئی سی سی کے باقائدہ اور مکمل رکن کی حیثیت سے پاکستان کی ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹیسٹ میچز کھیلنے کے لیے نمائندگی کی حقدار قرار پائی۔ یہ سلسلہ مختلف تنازعات کے ساتھ 2004 تک جاری رہا پھر 2005 میں پی سی بی نے ویمن کرکٹ کو پی سی بی کے تحت ویمن ونگ قائم کرکے اسکا حصہ بنا دیا اور اب تقریباً 13 برس اور ٹوٹل 22 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک عوام کی کثیر تعداد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہماری عورتوں کی کرکٹ ٹیم بھی ہے۔ اس کا بنیادی سبب پاکستان کرکٹ بورڈ کا ویمن ٹیم کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک بھی ہے مختلف وقفوں میں مختلف نا انصافیاں سامنے آئی ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بورڈ کبھی بھی عورتوں کی ٹیم کو مردوں کی ٹیم جیسے وسائل تو کیا اس کے چوتھائی حصے کے برابر بھی سہولیات فراہم نہیں کر سکا۔ چاہے وہ کھلاڑیوں کے سالانہ معاہدہ ہو، میچ فیس ہو، ڈومیسٹک ہو، غیر ملکی دورے ہوں، تربیتی کیمپس ہوں یا تربیت کے لیے معیاری کوچز کی تقرری کا معاملہ ہو، قومی ٹیم ہمیشہ حق تلفی کا شکار ہی رہی ہے۔ عورتوں کی قومی ٹیم کے حوالے سے حال ہی میں ایک نیا مسئلہ تب سامنے آیا جب ملائیشیا میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ 2018 کی افتتاحی تقریب میں 6 ممالک کے کپتان نے ٹرافی لیکر افتتاح کیا جس میں پاکستان کے علاوہ باقی پانچ ممالک کی جرسی کے سامنے اس کے ملک کا نام تھا جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جرسی پر پاکستان کے بجائے اس کے سپانسر کا نام نمایاں تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی حوالے سے ویمن ونگ کے سینیئر منیجر شاھد اسلم نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدار کی حیثیت سے ایک غیر جانبدارانہ موقف پیش کردیا لیکن ان کی طرف سے پیش کیے گئے موقف سے بہت سارے سوالات نے جنم لیا ہے، کہ تقریباً بیس برس گذر جانے کے بعد بھی اگر پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم نئی ہے تو مزید کتنے سال درکار ہونگے ٹیم کو تجربہ کار ہونے میں یا اس قابل بننے میں کہ جسکی بدولت ان کو بھی سپانسرز مل سکیں یا اگر مان بھی لیا کہ سپانسرز نہیں ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس حولے سے کیا اقدامات اٹھائے یا کیا کوششیں کی ہیں اور اسکے مثبت نتائج کیوں نہیں آسکے۔ ویمن کرکٹ ٹیم کا کوئی بھی ٹورنامنٹ ہو یا وہ جیت کے ہی کیوں نہ آجائیں لیکن سوائے ان کرکٹ شائقین کے جو ذاتی طور پر کرکٹ کے بارے میں علم رکھتے ہیں یا رکھنا چاہتے ہیں باقی کسی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ کیا ہوا تھا,کیا ھو رہا ہے اور آئندہ دنوں میں کیا ہوگا.اس کے برعکس جب مینز ٹیم کوئی ٹورنامنٹ جیت کر آتی ہے تو لاکھوں اور کروڑوں میں انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں جبکہ ویمنز کی ٹیم کے لیے ھمیشہ بحران ہی ظاہر کیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب مارچ 2018 میں ویمنز ٹیم سری لنکا کو ان کے ہوم گراو¿نڈ پر ایک روزہ میچز میں کلین سویپ اور ٹی ٹونٹی میں بھی شکست دے کر وطن واپس آئی تو انہیں ایئرپورٹ پر لینے کی زحمت بھی گواراہ نہ کی جاتی لیکن ماضی کے دیگر واقعات کی طرح اس میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایسے اقدامات نہ کرنے پر بہت کچھ سننا پڑا تھا۔ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا حشر تو یہ ہے کہ اپریل تا مئی میں کرائی گئی ڈپارٹمینٹل چئیمپئین شپ ٹرافی میں حصہ لینے والی خود پاکستان کرکٹ بورڈ کے نام سے (پی سی بی الیون) کی جرسیوں کے بیک پر کھلاڑیوں کا نام موجود نہیں تھا تو اب گراو¿نڈ میں کھلاڑی کی شناخت کیسے ہو جبکہ ایک اور ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام چاک سے لکھ کر ٹیپ لگائی گئی تھی جسکا سبب یہ بتایا گیا کہ وقت کی کمی کے باعث نام نہیں لکھوائے جا سکے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس وقت کی تو ھمیشہ کمی رہی ہے لیکن ایک اور بھی سبب ہو سکتا ہے کہ یا تو آخری وقت تک کھلاڑیوں کا چناو¿ نہیں ہو سکا ہوگا جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویمنز کرکٹ میں عدم دلچسپی کا اہم ثبوت ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اتنا بحران کا شکار ہے اور ان کی اتنی خستہ حالت ہے تو انگلینڈ کے خلاف کھیلنے گئی ہوئی مینز ٹیم کے ساتھ آ دھی مینجمنٹ کا جانا کیا اتنا ہی ضروری تھا.ہالیڈی پیکج سمجھ کر ٹیم کے ساتھ گئی ھوئی مینجمنٹ اور ٹیم وطن واپس آجانا لیکن چیئرمین بورڈ وہیں رک جانا اور ان کے 31 روزہ دورے پر 45 لاکھ کے اخراجات کا اضافی بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم ابھی تک بنیادی سہولیات کے لیے کوشاں ہے اس کے باوجود بھی اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اس وقت دنیا میں تیزی سے شہرت حاصل کرتی ہوئی اور آگے بڑہتی ہوئی پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم جس کے بیش وقت 3 کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی درجہ بندی میں پہلے 10 نمبروں میں ہیں تو اگر بورڈ کی طرف سے بھی انہیں مکمل توجہ دی جائے تو یقیناً یہ ملک اور قوم کے لیے اور زیادہ باعث فخر بن سکتی ہے

ای پیپر دی نیشن