جو کرکٹ ٹیم مسلسل تین دن تک ہّلا گلا ٹِرپ سے فارغ ہو کر میدان میں اُتری ہو، اسکی ’’زبردست کارکردگی ‘‘ایسی ہی ہو گی ، جو ہمیں بھارت کی کرکٹ ٹیم کے مقابلے میں نظر آئی۔ اب اس پر اس قدر شور و غوغا ، چیخ و پکار اور ہنگامہ کیوں ہو رہا ہے ۔ کھلاڑیوں اور آفیشلز سمیت ہماری ٹیم کو اتنی داد تو دینی چاہیے کہ تمام طوفانی لہروں کے مقابلے میں اپنے پتوار سنبھالے رکھے۔ اُن کی ذُمے داری ہی نہیں، بہادری کا بھی یہ عالم تھا کہ مانچسٹر اور نواحی علاقوں میں اُنکی مہربان فیمیلیز کی طرف سے دوپہرا ور رات کے کھانے اور پینے کی دعوت فراخ دلی سے قبول کی اور انہیں مایوس نہیں کیا ۔ مختلف اقسام کے کھانوں اور کورسز کے دوران ہمارے کھلاڑی اور آفیشلز کھانے پینے کی طرف دھیان دینے اورحسینائوں سے اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف رہنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے میچ جیتنے کی حکمتِ عملی پر غور کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب میچ شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی تھے تو ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی کیفے میں شیشہ پیتے ہوئے بھی بھارت سے مقابلے کی ترجیحات طے کرنے میں مصروف رہے ۔ برسوں پہلے بھی ایسے ہی ہوا تھا ۔ صبح بھارت سے فائنل میچ تھا اور ہمارے کھلاڑی رات گئے تک ان رنگین محفلوں میں شریک رہے جہاں فلم انڈسٹری اور پوش ایریا ز سے تعلق رکھنے والی حسینائیں ان کا دل بہلاتی رہیں ۔ اگلے روز کرکٹ سٹیڈیم میں بھی انکی وکٹیں کچھ اس طرح گرتی اور اُڑتی رہیں کہ ُدنیا حیران رہ گئی۔ کرکٹ کے ان کھلاڑیوں کی کارگردگی سب کے سامنے ہے۔ انہیں سالانہ کروڑوں روپے کا معاوضہ جات اور مراعات کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں جو کھلاڑی کبڈی، ہاکی، تن سازی ، پہلوانی اور دیگر کھیلوں میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں، دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں انہیں چند لاکھ روپے دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ گوجرانوالہ میں مقیم انٹرنیشنل انعام اللہ بٹ فنِ پہلوانی سے وابستہ ہیں۔ اب تک کئی ٹائیٹل حاصل کر چکے ہیں وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں حکومت کی طرف سے ہر سال’ ’بھاری معاوضہ‘‘چند لاکھ روپے ادا کیا جاتا ہے ۔ ذرا سوچئے ! پہلوان کی خوراک قیمتی مہنگی مغزیات کی سردائی (صبح اور شام کے اوقات میں)اسی طرح دو وقت بھُنا ہوا بکرے کا گوشت اور بادام والا دودھ ہوتی ہے ۔ اس پر ہر ہفتے کئی لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ خوراک استعمال نہ ہوں تو پہلوان کا زور ختم ہو جاتا ہے۔ انعام اللہ بٹ تو جیسے تیسے گزر اوقات کر لیتے ہیں، دیگر پہلوان ، کبڈی کھلاڑی اور تن ساز چند ہزار روپے کی تن خواہ اور معاوضے سے کس طرح گزارہ کرتے ہونگے ۔ اس بارے میں کبھی سوچا نہیں جاتا ۔ اسے کہتے ہیں ’’اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پہ مہر‘‘۔ قومی کھلاڑیوں کی قدر و منزلت ضرور ہونی چاہیے مگر صرف کرکٹ کے کھلاڑی ہی نہیں، دیگر کھیلوں سے وابستہ لوگوں کی پذیرائی بھی ہونی چاہیے ۔ اس بات کا دُکھ نہیں کہ مانچسٹر میں ہم بھارت سے ورلڈ کپ میچ ہا ر گئے ، غم تو اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑی اپنے جوہر دکھانے میں ناکام رہے۔ اُنکی کارکردگی صفر رہی۔ ضرورت سے بہت زیادہ اعتماد ہمارے کھلاڑیوں کو لے ڈوبا۔ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کئے بغیر ہار کر گرائونڈ سے باہر آئے۔مصلحت کے نام پر کڑوی گولیاں کھانے کو ملیں تو ایسا ہی ہُوا کرتا ہے۔ کھانے پینے کی باتیں چل نکلی ہیں تو حُسن ِ اتفاق سے ہمیں عمران خان فیم ’’جمائما خان‘‘ کی بات یاد آگئی۔ ابھی چند دن ہی بیتے ہونگے کہ جب اُنہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ساتھ مداحوں کو بتایا ہے کہ انہیںپاکستان میں قیام کے دوران جلیبیاں اور گلاب جامن بہت پسند تھے ۔ یہ دونوں مٹھائیاں عام طور پر خاص لوگوں کی پسند ہوتی ہیں۔ دودھ جلیبی کی رسم تو شادی کے موقع پر آج بھی پوری کی جاتی ہے ۔ عام طور پر سردیوں میں دودھ جلیبی نوجوانوں ہی نہیں ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی فرمائش بھی ہوتی ہے ۔ جلیبی کا لفظ صرف کھانے پینے کے حوالے سے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایک محاورہ تو بہت دلچسپ ہے کہ فلاں صاحب یا صاحبہ سیدھی سادھی ہے۔’’ جلیبی کی طرح‘‘، اس میں بے حد سادگی سے جو بھرپور طنز شامل ہے اس کی مثال کم ہی مل سکتی ہے ۔ ایک دور تھا جب کھانے پینے کی چیزیں خالص مِل جایا کرتی تھیں تو مختلف شہروں میں دیسی گھی سے تیار کی گئی جلیبیوں کی دُکانوں پر لوگوں کا ہجوم رہتا تھا ۔عُرس کی تقریبات اور ثقافتی میلوں میں جلیبی کی دُکانیں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور موجودہ دور میں بھی لوگ وہاں سے سوغات لے کر گھر واپس جاتے ہیں۔ جمائما نے جلیبی کے ساتھ گلاب جامن کو بھی یاد کیا ہے ۔ بلاشبہ گلاب جامن اکثر لوگوں کی پسند ہوتا ہے۔ ایک دور تھا جب مٹھائیوں میں ’’لڈو‘‘سب سے زیادہ مقبول ہوا کرتا تھا۔ موتی چور لڈو بھی اسی حوالے سے تیار کیا جاتا رہا ۔پھر برفی بھی پسندیدہ مٹھائی میں سبقت لے گئی۔ اب دو تین دہائیوں سے گلاب جامن اور چم چم نے سب کو مات دے رکھی ہے ۔ گلاب جامن کی ایک خاص قسم گوجرانوالہ، قصور اور شرق پور میں تیار کی جاتی ہے ۔ ان مقامات سے لوگ یہ مٹھائی تبرک کے طورپر گھر لے جاتے ہیں۔ اُس کا اپنا ہی ایک لُطف ہے ۔ منفرد اور مخصوص لُطف کے حوالے سے اس کا ثانی نہیں۔ غالباً جمائما کو یہی گلاب جامن تحفے میں ملے جو انہیں بے حد پسند آئے ۔ گلاب جامن کی اس خاص قسم کا ذائقہ اور نفاست قدرتی طور پر بہت اعلیٰ ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی جمائما کو یہ مٹھائیاں آج بھی بہت پسند ہیں اور وہ ان مٹھائیوں کو ’’ مِس‘‘ بھی کرتی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ عمران خان سابق شوہر ہونے کی حیثیت سے جمائما کو خوش ذائقہ اور نفیس جلیبیاں اور گلاب جامن کا تحفہ بھی بھیج دیتے ۔ تاہم یہ کام جمائما کا کوئی مداح بھی کر سکتا ہے۔ ویسے بھی ہماری اسلامی روایات میں یہ شامل ہے کہ ایک دوسرے کو تحائف دیا کرو۔ کسی بھی طرف سے جمائما کو اگر اُنکی پسندیدہ مٹھائیاں بطور تحفہ بھیج دی جائیں تو یقینا سرپرائز ہو گا۔