پارلیمنٹ ،شہباز شریف اور زرداری کی ’’سرگرمیاں‘‘

پارلیمنٹ کے اندرااور ’’ سیاسی ٹمپریچر ‘‘ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’سیاسی جنگ ‘‘ نے شدت اختیار کر لی ہے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومتی بنچوں نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو تین چار روز تک بجٹ پر بحث کا آ ٓغاز نہیں کرنے دیا قومی اسمبلی کا ایوان ’’مچھلی منڈی‘‘ بنارہا بالآخر سپیکر قومی اسمبلی کی مداخلت سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کی تقاریر ’’خاموشی‘‘ سے سننے کا ’’جنٹلمین اگریمنٹ‘‘ ہو گیا میاں شہباز شریف نے بھی تین روز بعد اڑھائی گھنٹے میں ٍ بجٹ پر بحث مکمل کر لی۔ اگرچہ ان کے خطاب کے دوران حکومتی ارکان ’’جملے ‘‘ کستے رہے لیکن مجموعی طور ان کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور انکی تقریر کے دوران ’’مداخلت نہیں کی البتہ انکی تقریر کیلئے ’ڈائس‘‘ فراہم کرنے پر اعتراض کر دیا جوسپیکر نے مسترد کر دیا یہ ڈائس میاں شہباز شریف کی درخواست پر فراہم کیا گیا میاں شہباز شریف نے کمر کی تکلیف کے باوجود اڑھائی گھنٹے خطاب کر کے حکومتی بنچوں کو سرپرائز دیا۔ میاں شہباز شریف کے پرسکون ماحول میں بجٹ پر خطاب نے ایوان میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کی راہ بھی ہموار کر دی ہے تاہم ابھی تک انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب نہیں کیا۔ میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں جہاں بار بار میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ’’ میگا پراجیکٹس‘‘ کا فخریہ انداز میں کا ذکر کیا وہاں وہ وزیر اعظم کو عمران خان ’’ نیازی‘‘ کے نام سے یاد کرتے رہے ۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوا تو نیب نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری کو اپنا ’’ مہمان ‘‘ بنا لیا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پورا ہفتہ آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں ’’لیت و لعل ‘‘ سے کام لیتے رہے سپیکر کے پروڈکشن آرڈر بارے میں ’’قانونی مشوروں ‘‘ نے طوالت پکڑی تو پیپلزپارٹی کے ارکان کو سپیکر قومی اسمبلی چیمبر کے سامنے دھرنا دینا پڑا بالآخر سپیکر نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا ۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت ساتھ ’’ میثاق معیشت‘‘ کر نے کیلئے تیار ہے ۔ آئیں مل کردیر پا معاشی پالیسی بنائیں،پاکستان ہے تو ہم سب ہیں‘‘ آصف علی زرداری نے جو کم و بیش 12سال تک جیل میں رہے ‘ پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں آمد پر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ میری گرفتاری سے پیپلز پارٹی کوکو ئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس نوعیت کے اقدامات سے پارٹی اور مضبوط ہو گی،حکومت کوحساب کتاب بند کر کے آگے کی بڑھنے کی بات کرنی چاہیے ، ہماری حکومت نے کسی سیاستدان کو گرفتار نہیں کیا تھا یہ بات حکومت کو سوچنی اور سمجھنی چاہیے ۔جو ’’طاقتیں ‘‘انہیں لیکر آئی ہیں انکو بھی سوچنا چاہیے،خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل عوام کھڑے ہو جائیں ، پھرہم سنبھال سکیں گے اور نہ ہی کوئی دوسری سیاسی جماعت اور نہ ہی کوئی اور۔حکومت کو نظر نہیں آرہا مگر مجھے نظر آرہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے بھی گیم نکل جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کی شہادت کے بعد سند ھ میں ’’پاکستان نہیں چاہیے‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے جس پر میں نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ’’ پاکستان کھپے‘‘ نیب کی وجہ سے سرمایہ کار اور عوام خوف زدہ ہے‘‘۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفر نس میں مسلم لیگ ن کے قائد اورسابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضما نت مسترد کردی ہے ، نواز شر یف کے وکیل خوا جہ حارث نے عدا لت کو بتا یا کہ نواز شر یف کا علا ج پا کستان میں نہیں بیرو ن ملک ہو نا ضروری ہے جس پر عدالت نے طبی بنیا دو ں پر ضما نت سے متعلق سپر یم کو رٹ کے وا ضح ا حکا ما ت مو جو د ہیں، خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی حالت 60 فیصد سے زائد خطرے کی حالت میں ہے،انجیو گرافی کے بعد نواز شریف کو مزید علاج کی ضرورت ہے۔ذہنی تنائو کے خاتمے کیلئے بھی علاج ضروری ہے۔جسٹس محسن اختر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ’’ پاکستان میں نواز شریف کاعلاج ممکن نہیں؟‘‘ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دو وجوہات کی بنیاد پر علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف کو دل کی تکلیف ہے شریانوں میں بلاکیج بھی بڑھ رہی ہے،نواز شریف کا شوگر لیول برقرار رکھنے کیلئے انکے پاس ہر وقت ایک مددگارہونا چاہیے۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا سوئٹزرلینڈ کے ماہر امراض قلب ایم وائے سندھو نے نوازشریف کو 13مہلک بیماریاں لاحق ہونے کی نشاندہی کی ہے۔علاج میں تاخیر ہوئی تو نواز شریف کی جان کو دوران علاج بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے؟اس پر خواجہ حارث نے کہا میرا خیال ہے جب برطانیہ سے واپس آئے تو اس دوران انکا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا۔ ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے تو الگ سے سماعت ہوگی ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ’’ اگر کسی ملزم کو ناقابل علاج مرض لگ جائے تو اس کی طبی بنیادوں پر ضمانت دی جا سکتی ہے؟بنیادی آئینی حقوق کے مطابق جب کسی ملزم کو ناقابل علاج بیماری ہو تو اسے رہا کر دینا چاہیے۔‘‘ خواجہ حارث نے کہا اگر ملزم کو کینسر ہو جائے تو اس کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ نے 24 اور 25 جون 2019ء کواسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اے پی سی دو روز تک جاری رہے گی۔ جس میں موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے پیپلز پارٹی حکومت ’’گرانے‘‘ کیلئے تحریک چلانے کے بارے میں’’ تذبذب ‘‘ کا شکار ہے ۔ بلاول بھٹو زداری نے مولانا فضل الرحمنٰ سے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کو گرانا نہیں چاہتی پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے تاہم حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے رابطہ عوام مہم شروع کرنی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زداری کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کیا۔ اور کہا ہے کہ اس بارے میں آل پارٹیز کانفرنس میںحتمی فیصلہ کیا جائیگا۔
میاں شہبازشریف کی مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات میں مسلم لیگ ن کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر اے پی سی نے حکومت ’’ گرانے‘‘ کیلئے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی کال دی تو مسلم لیگ ن اس میں اپنا حصہ ڈالے گی دوسری طرف حکومت نے بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کے گرد ’’گھیرا ‘‘ تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میاں نواز شریف کی میڈیا کے لوگوں سے ’’بات چیت‘‘ کو روکنے کیلئے ان سے ملاقاتوں کو’’ محدود‘‘ کیا جا رہا ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی ضمانت پر’’ رہائی ‘‘ کیلئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت پر دبائو بڑھا یا جائیگا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز عوامی اجتماعات سے خطاب کریں گی میاں نواز شریف پارٹی کی قیادت سے الگ ہونے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی مریم نواز کے سیاسی رول کو’’ محدود‘‘ کرنے پر راضی ہیں لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ آنیوالے دنوں میں میاں نواز شریف کی رہائی ممکن نہیں میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاسی اسیروں کی رہائی کا معاملہ اٹھایا جائیگا ۔
آل پارٹیز کانفرنس کانفرنس کے ایجنڈے میں اسیر سیاسی رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ سرفہرست ہو گا میاں نواز شریف جو اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں کے ’’اعصاب‘‘ کا امتحان لیا جارہا ہے جب مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین سے میاں نواز کے ’’مورال ‘‘ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتا یا کہ میاں نواز شریف علالت کے باوجود جس طرح جرات و استقامت سے جیل کاٹ رہے ہیں بہت کم سیاسی رہنمائوں کے حصے میں یہ بات آئی ہے میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ ایک بہادر اور جرأت مند سیاست دان ہیں اور ہمارے لئے جرأت و استقامت کا کوہ ہمالیہ ہیں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان نے بتایا کہ میاں نواز شریف مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کوئی قوت انہیں اندر سے توڑ نہیں سکتی ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات کہی جاری ہے کہ میاں نواز شریف کی فوری طور پر رہائی ممکن نہیں انہیں انصاف کے حصول کیلئے اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکٹانا پڑیگا ۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...