اسلام آباد(محمد صلاح الدین خان)آئینی ماہرین نے کہا ہے کہ جب قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوگا توکسی کو جرم کرنے کی جرات نہ ہوگی ہر ملزم کے دل میں یہ خوف ہوگا کہ اسے اس کے کیئے کی سزاملے گی ۔اپیکس کورٹ کے چیف جسٹس کے عمر قید کی تشریح کے ریمارکس نے قانون دانوںاور زیرالتواء مقدمات سے وابستہ افراد میں حل چل مچادی ہے۔سینئرقانون دان سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضی نے کہا ہے کہ پچیس سال عمر قید کی اگر سپریم کورٹ تشریح کرتا ہے تو وہ ایک نظیر قائم ہوگی ۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے کہا ہے کہ قانون کی عزت قانون پر عمل درآمد میں ہی ہے قانون کے غلط استعمال اورابہام کے باعث بعض اوقات اصل ملزم بچ جاتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ عندیہ کہ وہ پچیس سال عمر قید کی سزاء کی آئینی تشریح کریں گے خوش آئند ہے ۔سینئر قانون دان چوہدری قمر ایڈووکیٹ نے کہاکہ جب جرم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کو یہ پتہ چلے گا کہ عمر قید کا مطلب ہے کہ اب ان کی باقی عمر جیل میں گزرے گی اور رعایت اور معافی سے بھی ان کی سزائے قید میں کوئی فرق نہیں پڑے گا تو اس سے ہر ملزم کے دل میں خوف پید ا ہوگا وہ جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ آئینی ماہر صدیق بلوچ نے کہا ہے چیف جسٹس آف پاکستان کا پچی سال عمر قید کی سزاء کی تشریح کا فیصلہ درست ہے ۔ ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے کہا کہ آئین کی تشریح کا رائٹ پلیٹ فارم سپریم کورٹ ہی ہے ، سپریم کورٹ کی تشریح فائنل اور دیگر کورٹس پربائنڈنگ ہوتی ہے۔ایڈووکیٹ شیخ احسن الدین نے قانون میں جھول کے باعث ملزمان بچ جاتے جب قانون صاف اور سخت ہوگا توانصاف کے تقاضے پورے ہوں گے ، معاشرے میں جرم کم ہوجائے گا۔ ایڈووکیٹ عمران بلوچ نے کہا سعودیہ میں جرائم کی ریشو اسی وجہ سے کم ہے کہ وہاں اسلامی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرکے فیصلہ دیا جاتا ہے ۔