مودی کی لداخ ذلت کہانی

مودی ذلت کی عجب کہانی بن چکاہے سارا ہندوستان اس ‘‘مہان’’ بدنام کو گالیاں دے رہا ہے بھارتی فوج چین سے لڑنے کی بجائے امن امن پکار رہی ہے کانگریس سمیت ساری حزب اختلاف طنز کے تیر برسا رہی ہے اور چین 5 اگست 2019 کی پوزیشن بحال کرنے کا ‘‘مشورہ’’ دے رہا ہے اب مودی بذریعہ ماسکو عزت بچانے کی کوشش ناتمام کر رہا ہے چینی روسی اور بھارتی وزرا خارجہ بات چیت کریں گے
بھارت نے مظلوم کشمیریوں کو دبانے اور پاکستان کو آنکھیں دکھانے کے لئے 5 اگست 2019کو جو غنڈہ گردی اور عالمی بدمعاشی کا مظاہرہ کیا، وہ اسے بہت مہنگی پڑ چکی ہے۔ ’اللہ کے ہاں دیر ہے نہ اندھیر ہے‘ کا عملی مظاہرہ چین سے ہونے والی بھارتی چھترول ہے۔ بھارتی ’اٹوٹ انگ‘ کی رٹ ذلت ورسوائی کے پاتال میں اتر چکی ہے۔چین نے بھارتی ’بکھیوں‘ کی ایسی ’سکائی‘ کی ہے کہ موذی کے ’انگ انگ‘ سے ٹیسوں کے باوجود آواز ہی بند ہوگئی ہے۔ ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ کے دعوے کرنے والے اپنے گھر میں بدترین رسوائی کاشکار ہیں، بی جے پی کے وزراء کی گیدڑ بھبکیوں، بالی ووڈ کی معجون اور سوشل میڈیا پر چین کو دھمکیوں کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش ’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کی تصویر بن چکے ہیں۔
اللہ کی لاٹھی ’آر۔ایس۔ایس‘ اور’بی۔جے۔پی‘ کے انتہاء پسند بزدلوں کے سر پر برسی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی متنازعہ اور خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو اپنے آئین میں دوبارہ بحال کرنا ہی بھارت کے لئے راہ نجات ہوگی۔ بھارتی انتہاء پسند ٹولے کو عوام میں جنگی جنون پیدا کرنے کی حرکات بند کرنے اور بالی ووڈ کی فلموں میں یہ تاثر بند کرنے سے ہی بھارت امن کی طرف واپس لوٹ سکتا ہے کہ بھارتی فوج ناقابل تسخیر ہے کیونکہ لداخ اور وادی گلوان، پینگانگ جھیل اور دیگر متصل علاقوں میں بھارتی فوج کی جو ’’گیدڑ کْٹ‘‘ لگ چکی ہے، اس نے یہ تاثر بھاپ کی طرح اڑا دیا ہے۔ لداخ کی تاریخی حیثیت بحال کرنا ہی بھارت کی بچت کی راہ ہے۔
موذی اپنے ہی چنگل میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اگر وہ سی پیک روکنا چاہتا ہے تو جنگ ناگزیر ہے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی اس کی بوڑھی اور چٹخی ہڈیوں میں سکت نہیں۔ دنیا میں عالمی مدبر اور بصیرت افروز شخصیت بن کر ابھرنے والے چین کے صدر شی جن پنگ عزم صمیم کی علامت ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر ارب ہا ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس سرمایہ کاری کو بچانے کے لئے وہ بھارتی جارحیت کے خلاف جنگ پر 100 ارب مزید خرچ کردیں گے۔ لیکن بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گی۔ اب خود بھارت کے لئے تجویز کیاجارہا ہے کہ مودی روس کے ذریعے سی پیک کا حصہ بن جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کوئی امریکی ہتھیار چینی برتری سے بھارت کو نہیں بچا سکتا۔ بھارتی وزیراعظم اور ان کے وزراء اور سروسز چیفس کے بیانات ان کی ہڑبونگ کا ثبوت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ یہ متضاد بیانات جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں موذی کا دعوی تھا کہ ان کے کسی علاقے پر چین نے قبضہ نہیں کیا لیکن وزراء اور سروسز چیفس کے بیانات اس دعویٰ کی نفی کر رہے ہیں خود بھارتی حزب اختلاف نے موذی مودی کے بے بنیاد دعوؤں کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دئیے ہیں۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جھوٹ سے بی جے پی اور مودی حکومت کی ذلت ورسوائی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تازہ واویلا میں ان کا دعوی تھا کہ چین نے 40 بھارتی فوجی موت کے گھاٹ اتاردئیے۔ ان کی مدد کو سابق بھارتی آرمی چیف اور وزیر مملکت ٹرانسپورٹ وی کے سنگھ بھی میدان میں اترے ہیں اس کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہمارے 20فوجی مارے گئے ہیں تو چین کے دوگنا جوان مارے گئے ہیں۔ وی کے سنگھ دور کی کوڑی لائے کہ ’’چین کو معاشی طورپر زک پہنچائی جائے۔‘‘مودی کے پہلے دور حکومت میں وی کے سنگھ خارجہ امور اور شمال مشرقی خطے کی ترقی کے وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔
فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد وی کے سنگھ جنونیوں کے ٹولے ’بی جے پی‘ میں شامل ہوگیا اور بھارتی ریاست اترپردیش کے غازی آباد حلقے سے رکن پارلیمان منتخب ہوا۔ 2019میں بھی اسی حلقے سے دوبارہ منتخب ہوا۔
وزیر دفاع دلیل دینے کی کوشش کررہا ہے کہ چین نے کبھی بھی اپنے فوجیوں کے جانی نقصان کو تسلیم نہیں کیا۔ کہاجارہا ہے کہ چین نے بھارتی فوجیوں کے ساتھ دست بہ دست لڑائی کے بارے میں اب تک کچھ نہیں کہا جس میں 20 بھارتی فوج ہلاک اور 76زخمی ہوئے۔ ایک نیا پینترہ یہ بھی لیاجارہا ہے کہ 24 جون کو روس کے دورے کے دوران بھارت چین کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں دفاعی معاہدے بھی کرے۔‘‘ بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس ’آر۔ایس۔ایس‘ کے زیر اثر انتہاء پسند ’بی۔جے۔پی‘ پر تاک تاک کر نشانے لگا رہی ہے , تیر برسارہی ہے۔ کانگرس رہنما کپل سبال نے تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’’اگربھارتی حکومت کے دعوے سچ ہیں تو پھر بھارتی وزیراعظم آفس کے سرکاری بیان میں سے الفاظ کو بعد میں ’’ڈیلیٹ‘‘ کیوں کردیا گیا؟ مودی کا19 جون کا بیان وزیردفاع، وزیر خارجہ اورآرمی چیف کے بیانات کی تردید ہے۔‘‘
کپل سبل نے اہم سوال یہ بھی اٹھایا کہ ’’اگر بھارت نے چین کے ہاتھوں لداخ میں زمین سے ہاتھ نہیں دھوئے تو پھر 20 بھارتی فوجی کیسے مارے گے؟85 بھارتی فوجی شدید زخمی کیسے ہوئے؟ کیسے چین نے 10 افسر اور بھارتی فوجی گرفتار کرلئے؟ 20 جون کے بھارتی خارجہ امور وزارت نے وزیراعظم کے بیان کے چینی کارروائی سے متعلق بیان کی تردید کیوں کی؟کپل سبل کے اس سوال کا بھی اب تک کوئی جواب نہیں آیا کہ ’’بھارتی وزیراعظم نے بڑی تعداد میں چینی فوجیوں کی لداخ میں موجودگی سے متعلق بھارتی وزیردفاع کے بیان کی تردید کیوں کی؟ مزید یہ کہ ’’بھارتی وزیراعظم نے بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کی تردید کیوں کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ چین ماضی والی صورتحال بحال کرے۔
شیو سینا کے اودھے ٹھاکرے اپنے آنجہانی والد کے راستے پر چلتے ہوئے بول بچن کررہے ہیں۔ ’’بھارتی یک جہتی‘‘ کا منترا جپتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ’’بھارت مضبوط ہے مجبور نہیں۔ ہماری حکومت اس قابل ہے کہ آنکھیں نکال کر ہاتھ میں دے دے۔‘‘ یہ تجویز بھی دی جارہی ہے کہ چین کو ٹیلی کام، ریلوے اور ہوابازی کے شعبہ جات میں جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ چین میں جمہوریت نہیں، آمریت ہے۔‘‘ یہ تبصرے بھارت کے اندر جھلاہٹ اور مایوسی کا واضح پتہ دے رہے ہیں۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے موذی سے گلہ کیا کہ چین کے ساتھ کشیدگی کے معاملے میں ان کی جماعت کو ’کل جماعتی کانفرنس‘ میں مدعو نہیں کیاگیا۔ موذی کی زیرصدارت اس اجلاس میں بہار کی سب سے بڑی جماعت کو نہ بلانے پر بھی احتجاج ہورہا ہے۔
کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے چین کے حملے کو ’’پہلے سے تیار شدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہاکہ بی جے پی حکومت سوتی رہی۔ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کیاجائے۔‘‘ یہ تمام تبصرے پڑھ اور سن کر بالکل ویسا ہی محسوس ہوا جیسا کہ ہم یہود وہنود کے مظالم کے خلاف ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں جاری کرتے اور مہمات چلاتے آئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت جو جموں وکشمیر کو یک طرفہ اور غیرقانونی کارروائی کے ذریعے اپنے اندر ضم کرنے کی حماقت کرچکا ہے، آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کرکے اپنے تئیں یہ پیغام دے رہا تھا کہ ’’جموں وکشمیر پر کوئی تنازعہ نہیں۔یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔ اس دعوے کے حق میں موذی نے سینہ پھلا کر بڑے تکبر سے کچھ عرصہ قبل یہ کہاتھا کہ ’’آرٹیکل 370 ، 35 اے کا معاملہ۔۔۔ڈَن۔۔ رام مندر کا معاملہ۔۔ڈَن۔۔، یہ تو شروعات ہیں۔‘‘ اب موذی کو پتہ چلا کہ اگر طاقت ہی سب کچھ ہے تو تم سے بڑی طاقت موجود ہے۔ آپ کے اپنے ہی اصول کے مطابق یہ معاملہ اب طے ہوچکا ہے؟
بھارت ایک ایسی ’کِڑکّی‘ میں پھنس کر تڑپ رہا ہے جس میں وہ اپنے ہی تکبر، غرور اور فارمولے کے تحت پھنسا ہے۔ اب اس سے واپسی کے لئے اسے یا تو سیاسی موت کو گلے لگانا پڑے گا یا پھر بھارت کے ٹکڑے اور حصے بخرے ہونا تقدیر کا فیصلہ بن کر رہے گا۔
تازہ اطلاعات کے مطابق چین اور بھارت کے اعلی فوجی افسران کی سطح پر پھر بات چیت ہورہی ہے تاکہ وادی گلوان اور درپیش کشیدگی پر غورہو۔ مولڈو کے مقام پر پہلے بھی کور کمانڈرز کی سطح پر بات چیت ہوئی تھی۔ اب پھر مولڈو چوشل کے اس مقام پر دوبارہ لیفٹیننٹ جنرلز یا کورکمانڈرز کی سطح پر اجلاس ہورہا ہے۔
مودی کا موذی اور پلید مشیر سلامتی امور اجیت کمار ڈؤل منظر سے غائب ہوچکا ہے اور اکیلا مودی بغلیں جھانک رہا ہے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن