ملک میںاس وقت کرونا وائرس کے کیسز میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی روک تھام کے لئے حکومت کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان بھر میں اسمارٹ لاک ڈائون کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے تحت چاروں صوبوں کے متاثرہ علاقوں کو سیل کیا جارہا ہے یقینا یہ تمام تر اقدامات عوام کے بہتر مفاد میں کیئے جارہے ہیں تاکہ عوام اس وبا سے محفوظ رہ سکیں یقینا کرونا وائرس نے پوری دنیا کا نظام درہم برہم کر دیا ہے قیمتی انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ معاشی نظام کو بھی بڑا نقصان پہنچا ہے جس پر پوری دنیا مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی ہے البتہ کچھ ممالک نے اس وائرس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے ملک و قوم کے بہتر مفاد میں بڑے ہی مئوثر اقدامات کیئے ہیں جن کی وجہ سے ان ممالک میںکوئی خاص معاشی بحران پیدا نہیں ہوسکا بھوک بے روزگاری میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے کونہیں ملا۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں بھی کوئی خاص معاشی بحران پیدا نہیں ہوا ایران ترکی سعودی عرب یو اے ای جیسے ممالک کو یقینا نقصان کا سامنا ضرور ہوا مگر ان ممالک کے حالات پاکستان جیسے نہیں ہوئے ۔بد قسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ سیاسی وائرس نے بھی جنم لیا اور روایتی طور پر اس وائرس کو سیاست کی بھینٹ چڑا دیا گیااس وبائی آفت پر حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نے خوب سیاست چمکائی کرونا وائرس کے پیش نظر پاکستانی عوام کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے لندن سے پاکستان تشریف لانے والے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف صرف لیپ ٹاپ کے سامنے نظر آئے تین ماہ سے اپوزیشن لیڈر پاکستان میں موجود ہیں مگر ابھی تک لاہور کے ہی کسی ہسپتال کا دورہ کر کے کرونا سے متاثرہ افراد کی خیریت دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس میں حاضر نہیں ہوسکے نیب کے دروازے پر جانے کی موصوف ہمت نہیں کر پا رہے ۔فروری سے لے کر اب تک ن لیگ کرونا وائرس کی آڑ میں اپنے کیسز کو دبانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہی ہے ن لیگ عوامی خدمت کا جو دعوی کرتی رہی ہے ان پانچ ماہ میں مریم نواز شہباز شریف سمیت ن لیگ کی قیادت کی جانب سے عوام کو مکمل ریلیف فراہم کر کے لاک ڈائون لگانے کی کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دی اس وائرس کی آڑ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی صرف اپنا تحفظ کرتی نظر آرہی ہیں ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ عوام کو بغیر امدادی ریلیف کے قربانی کا بکرا بنا کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی پورے ملک میں مکمل لاک ڈائون یا کرفیو کی فرمائش صرف اس لئے کر رہی ہیں کہ چند ماہ کے لئے ان کو کرپشن پر ریلیف فراہم ہوسکے اور عوام کی نظر میں یہ حکومت ناکام ثابت ہوسکے ن لیگ اور پیپلز پارٹی عوام کو گھروں میں بھوکا رہنے اور روزگار سے ہاتھ دھونے کے سوا کوئی مئوثر مشورہ دیتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ساتھ ہی پوری اپوزیشن جو اٹھارویں ترمیم پر تو حکومت کے خلاف یکجہتی کا مظاہر کرتے ہوئے احتجاج کی دھمکی دیتی ہے مگر عوامی مسائل پر اس وقت تک خاموش تماشائی
بنی ہوئی ہے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عوامی مسائل پر صرف سیاست اور سیاسی بیان بازی کی جارہی ہے سنجیدگی کا فقدان حکومت کی جانب سے کم جبکہ اپوزیشن کی جانب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تقریبا اس حکوت کو دوسال کا عرصہ ہو چکا ہے اس تمام عرصے میں عوامی مسائل پر اپوزیشن کہیں نظر نہیں آئی ۔ ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ ملک میں اپوزیشن کا خاتمہ ہوگیا ہے اپوزیشن عوام کو اپنے ذاتی مفادات میں شور شرابا کرتی اسمبلی میںیا نیب کے دروازہ پر دکھائی دے گی جس سے ان کے دلوں میں عوامی مسائل کے درد کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے چینی آٹا بحران پر اپوزیشن حکومت کو درست سمت دکھانے کے بجائے سیاست کرتی نظر آ رہی ہے ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا خطر ناک وائرس کی زد میں ہے قیمتی انسانی زندگیا ں لمحوں میں ختم ہورہی ہیں ایسے میں پاکستان میں چور مچائے شور کی فلم چل رہی ہے ۔جس سمت اور جس حکمت عملی کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن اس وبا کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اُس سے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک سال سے زائد لاک ڈائون کا سامنا رہے گا اور اس عرصے میں ہماری مفلوج معیشت کا کیا انجام ہوگا اس کا بخوبی انداز کیا لگایا جاسکتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے حکومت بڑے پن کا مظاہر کرتے ہوئے ملک و قوم کے بہتر مفاد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے جس میں بلاول بھٹو مریم نواز شہباز شریف سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہوں کی شرکت کو حکومت یقینی بنائے اس پلیٹ فارم سے عوام کو کرونا وائرس سے احتیاط اور آگہی کا پیغام دیا جائے اپنی مفلوج معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل لاک ڈائون سے ہٹ کر کوئی مئوثر حکمت عملی طے کی جائے جس طرح اسمارٹ لاک ڈائون کے تحت اُن علاقوں کو سیل کیا جارہا ہے جہاں لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں اس حکمت عملی کو حکومت اور اپوزیشن مکمل یکجہتی کے ساتھ مزید مئوثر بنا نے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔اپنی معا شی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کاروباری سر گرمیوں کو مکمل سیل نہ کیا جائے البتہ اس میں ترمیم کی جائے مکمل ایس او پی اور شام پانچ بجے تک مکمل کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے وفاق اور صوبائی حکومتوں نے جو آن لائن تعلیم دینے کی حماقت کی اس پر نظر ثانی کی جائے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کسی گورنر کی اولادیں نہیں ہیں وہ ایک ایسے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا معاشی نظام بری طرح مفلوج ہے عوام کو گھروں میں قید کر کے کرونا کا خاتمہ شاید ممکن نہیں اس وائرس کے خاتمے کے لئے آگہی مہم کا مئوثر آغاز کیا جائے ملک کو پانچ بجے تک نارمل روٹین میں لاکر ہم یقینا اس وائرس کا خاتمہ ممکن بنا سکتے ہیں یہ قوم گھبرانے والی نہیں ہے ہمارے ارباب اختیار کو اس قوم کے ذہن کو سمجھتے ہوئے درست فیصلے کرنے ہونگے اگر ارباب اختیار اس قوم کے ذہنوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر دکھائی دیںگے تو اس قوم پر اپنے فیصلے کیسے مسلط کر سکیںگے یہ وقت یکجہتی کا ہے سیاست کے لئے ساری زندگی پڑی ہے قوم مصیبت کی اس گھڑی میں اس ملک کی تمام سیاسی مذہبی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنے کی منتظر ہے ۔۔۔۔۔