بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت نے 6ستمبر 1965ء کو لاہور جم خانہ میں لاہوری ناشتے کا سہانا خواب دیکھا اور اب بھارتی فوج کی ٹڈی دل قیادت نے لداخ کی جھیل کنارے ناشتے کا ایک خواب دیکھا جسے چینی فوج نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور بقول بھارتی جنرل کے دوسوسالہ بھارتی تاریخ میں اتنی بدترین شکست بھارت کی فوج کو کبھی نہیں ہوئی۔ اس ناشتے کے شوق پر بھارتی فوج نے تین درجن سے زائد لاشیں چھوڑ کربھاگنے کو ترجیح دی مگر چینی فوج نے کمبخت بھارتی فوج کو بھاگنے بھی نہ دیا اوردرجنوں اعلی افسران سمیت بھارتی سپاہ کو جنگی قیدی بنا لیا۔ اور مودی جسے امریکی ٹرمپ دوستی پربڑا مان تھا وہ اپنی شکست کے بعد روس کے قدموں میں جا گرا اور گڑگڑا کر اپنے جنگی قیدیوں کی حوالگی کے لیے ترلے کرنے لگا۔بھارتی فوج کی 8لاکھ سے زائد افواج کشمیر میں پچھلے 70سال سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب بھی وہ سرجیکل سٹرائیک اور ناشتے کا خواب دیکھتے ہیں ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔مجھے یقین ہے جس دن بھارت ناشتے کا چھوڑ لنچ یا ڈنر کا خواب دیکھے گا تو اس دن بھارتی قومی سلامتی انشاء اللہ ٹکڑوں میں بکھری ہوئی نظر آئے گی۔دراصل بھارت نے عملی زندگی کو بھی ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سمجھ رکھا ہے۔یہ اپنی فلموں میں کبھی کشمیر فتح کرتے ہیں ،کبھی لداخ فتح کرتے ہیں اور جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو ان کا اپنا بستر گیلا ہو چکا ہوتا ہے۔لداخ میں بھارتی سورمے ڈھیر ہو رہے ہیں۔ یہ انتخاب مودی سرکاری نے خود کیا ہے۔ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی ماری ہے۔ لداخ کو سٹیٹ یونین میں شامل کرکے سوئے ہوئے شیر چین کو جگا دیا ہے۔ چین نے ہر معاملے خصوصی طور پر کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی۔ بعض معاملات میں تو چین کا کشمیر پر موقف پاکستان سے بھی زیادہ سخت رہا ہے۔ کشمیریوں کو چین بھارت کے پاسپورٹ پر نہیں سادہ کاغذ پر ویزا جاری کرتا ہے۔ کچھ لوگ کارگل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بھارت کا پلڑا بھاری رہا تاہم صدر جنرل پرویز مشرف کا بدستور دعویٰ ہے کہ ہم نے بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا، کشمیر سے اس کا رابطہ کاٹ دیا تھا۔ بہرحال اس میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو اب چین نے پوری کر دی ہے۔ کارگل کا بدلہ لے لیا ہے۔ لداخ میں تو بھارت کو مارماری ہی ہے کارگل کے راستے بھی چین کی دسترس میں آ گئے ہیں۔ چین نے لداخ میں بھارتی فورسز کی ایسی حالت کی جو ایک بلی کے ہاتھوں اس چوہے کی ہوئی جس نے شراب کی دو بوندیں پی لیں اور دُم پر کھڑا ہو کر کہنے لگا نکالو بلی کو کدھر ہے۔ بلی آئی تو اس چوہے کا وہی حشر کیا جو بھارتی فلمی شیروں کا آج لداخ میں ہو رہاہے۔ مودی سرکار نے 5اگست کو لداخ کو بھارت میں آئینی طور پر شامل کرکے بم کو لات مار دی تھی۔ اس پر چین اور پاکستان کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ بھارت نے اسے سرسری جانا مگر چین مناسب موقع کی تلاش میں تھا۔ بھارت کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔بھارت سی پیک کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے گزرنے کی اس بنا پر شدید مخالفت کرتا رہا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ اب اس نے چین کے ساتھ متنازعہ علاقوں میں دفاعی تنصیبات کی تعمیر شروع کر دی۔ لداخ کا بڑا حصہ متنازعہ ہے وہاں بھارتی تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کے لیے چین نے وارننگ دی۔ بھارت باز نہ آیا تو چینی فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کی دھلائی کر دی۔ لائن آف ایکچوایل کنٹرول پر فریقین کی فوجیں اسلحہ استعمال نہیں کر سکتیں۔ وہاں جون کے شروع میں گھمسان کا رن پڑا۔ کئی بھارتی فوجی زخمی اور تیس گرفتا رہوئے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے 8کلومیٹر آگے بڑھ کر مستقل بنکر تعمیر کر دیئے۔ بھارتی حکومت پر اپوزیشن اور میڈیا کا اس بزدلی پر شدید ردعمل تھا۔ مودی سرکار نے فیس سیونگ کے لیے وسط جون میں ایک چینی چوکی پر حملہ کر دیا۔ اس میں سینکڑوں فوجی شامل تھے۔ ان کے" استقبال" کے لیے چینی فوج تیار تھی اور وہ بلندی پر بھی تھی۔ ان کے ڈنڈوں پر کیل لگے اور خاردار تارلپٹی ہوئی تھی۔ اور پھر اوپر سے پتھر بھی لڑھکائے اور برسائے گئے۔ جن کی زد میں آ کر جو طوفان اٹھا وہ دنیا نے دیکھا۔ چینی فوجیوں کے حملے کی شدت پر کئی سورموں نے بھاگنے کی کوشش کی اور دریا میں کود گئے۔ رات بھر زخمی منفی درجہ حرارت میں کراہتے رہے اور صبح تک جان کی بازی ہار چکے تھے۔ دریا میں ڈوبنے والوں کو لاپتہ قرار دیا جا رہاہے۔ یہ بالکل 62کی چین بھارت جنگ کا ایکشن ری پلے ہے۔ اس وار میں 1400بھارتی فوجی ہلاک،4ہزار قید اور حیران کن طور پر 17سو فرار ہو گئے تھے۔ اس موقع پر صدر مائو نے ایوب خان کو فون کرکے کہا تھا کشمیر پر قبضہ کر لو مگر ایوب نے اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ اب پاکستان ایسے حالات کے لیے عمران خان کی سیاسی اور جنرل باجوہ کی قیادت میں پوری طرح تیار ہے۔ کشمیر آزاد ہوتا نظر آ رہا ہے۔ چین نے بھارت کی گردن پر گوڈا رکھ دیا ہے جس سے بھارت بلبلا رہاہے، کراہ رہا ہے۔ اب وہ گلوان وادی کے حسین مناظر عامر خان کی فلم ہی میں دیکھ سکے گا۔ یہ وادی اب چین کے مضبوط حصار میں آ چکی ہے۔ چین نے Chichen's Neckپر بھی دبائو بڑھا دیا ہے۔
لاہوراور لداخ میں ناشتے کا شوق
Jun 23, 2020