بلاول ویژنری لیڈراورپاکستان کا مستقبل

کوئی شخصیت کس پائے کی ہے اس کا تعین انسان کا کردار کرتا ہے۔یہ کردار انسان کے فیصلوں اقدامات اور خیالات کے اظہار سے ہوتا ہے۔ان میں سے کسی کو کوئی ایک چیز شہرت کے آسمان کا ستارہ بنا سکتی ہے اور کوئی ایک بدنامی و گمنامی کی پستیوں میں بھی گر ا سکتی ہے۔اول الذکر میں محترمہ بینظیر بھٹو کی مثال دی جاسکتی ہے ۔وہ اپنے کردار کے باعث آج بھی زندہ ہیں۔دوروز قبل ان کی 67ویں سالگرہ منائی گئی۔وہ اپنے والد کی طرح بیک وقت کردار اور گفتار کی غازی تھیں۔نڈر اور بے باک تھیں۔انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ آمریت سے خوفزدہ ہیں نہ موت سے ڈرتی ہیں۔ ان پر کراچی میں 18 اکتوبر 2007کو بھیانک قاتلانہ حملہ ہوا،جس میں سینکڑوں جیالے جاں بحق اور زخمی ہوگئے مگر محترمہ اس حملے سے خوفزدہ نہ ہوئیں۔ انتخابی مہم جاری رکھی تاآنکہ دو ماہ بعد اسلام آباد کے حملے میں ان کا خون رزقِ خاک ہوگیا،وہ شہادت کے درجے پر جاپہنچیں۔2006ء میں جلاوطنی کے بعد وہ پاکستان لوٹیں تو ان کا تاریخ ساز استقبال کیا گیا لگتا تھا پورا ملک ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے امڈ آیا ہے۔ بینظیر بھٹو تقریر کرتیں تو لاکھوں سامعین انکے ایک ایک بے پایاں جذبات سے معمور لفظ پر جھوم جھوم جاتے ۔ان کا اپنی شہادت کے دن کا جلسہ عام سے شعلہ بار خطاب تاریخ رقم کرگیا وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح گرج اور برس رہی تھیں۔ذوالفقار علی بھٹو جلسوں اور اجلاسوں میں اپنی تقریروں سے سحر طاری کردیا کرتے تھے۔ ان کا بطور وزیر خارجہ اقوام متحدہ سے خطاب ہر محب وطن پاکستان کے خیالات و جذبات کی ترجمانی تھی۔ جلسوں میں انکے طرزِ تخاطب جھرنوں اور آبشاروں کی مانند ہوتا تھا۔سامعین مبہوت ہوجاتے۔ وفقے وقفے سے اپنے جذبات کا اظہار فلک شگاف نعروں سے کرکے پنڈال میں زلزلے اور طوفان کی کیفیت پیدا کردیتے۔ باپ بیٹی جیسا مقرر زمانے نے خال ہی دیکھا ہوگا۔انکے خطابات محض لفاظی نہیں،پُر مغزاور مدلل بھی ہوتے تھے۔ذولفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی یاد بلاول بھٹو زرداری کے پارلیمنٹ میں اجلاس کے موقع پر آئی۔ان کا وہی لب و لہجہ، وہی گھن گرج اور دل میں اتر جانیوالی باتیں تھیں۔آج اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف ہیں مگر قومی اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن لیڈر کا کردار بلاول ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح نوعمری میںادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کرونا بجٹ ‘ٹڈی دل کے حملوں اور معیشت سمیت کئی امور پر بات کی۔کئی سوالات کے جواب دیئے اور کئی سولات اُٹھائے جو ہنوز جواب طلب ہیں۔کہیں وہ طنز کے تیر برساتے ہیں،کہیں واضح اور کہیں بین السطور جوب طلبی کرتے ہیں۔انہوں جو کچھ کہا لگتا تھا زیڈ اے بھٹو اور بینظیر بھٹو پارلیمنٹ کے ماحول کو گرما رہے ہیں۔اس اجلاس کے انکے خطاب کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے۔ بلاول بھٹوزرداری کہتے ہیں۔’’ ہم تاریخ میں اس وقت چیلنجز کے سامنے کھڑے ہیں، پاکستان میں اس وقت کرونا سے 15منٹ بعد ایک شخص جان کی بازی ہار رہا ہے۔ ہمارا 2020کا جو بجٹ ہے، وہ ہمارا بجٹ نہیں ہو سکتا ہے۔ کس نے کہا تھا کہ پاکستان میں یہ تو نزلہ زکام ہے؟ کس نے کہا تھا کہ کرونا وائرس جان لیوا نہیں ہے ،کون کہتا تھا کہ گرمیوں میں کرونا خود بخود ختم ہو جائے گا ، کس نے کہا تھا کہ لاک ڈاون حل نہیں ہے۔ آج تک وہ کنفیوز ہے ’’میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کرو ں‘‘۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہیئے کہ تاریخ میں ہم کہاں کھڑے ہیں،ہمیں صدی میں بڑا چیینج درپیش ہے ،کرونا ملک کو توڑ سکتا ہے، ہر پاکستانی کی معاشی حالت متاثر ہو رہی ہے، ٹڈی دل کا خطرہ ہے ،سیلاب کی تباہ کاریوں کی پیش گوئی ہو رہی ہے، افسوس ایسے حالات میں ایسا بجٹ نہیں ہونا چاہیئے، یہ بجٹ کرونا ، ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتا ،اس وقت کرونا کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہیں، افسوس ہمارے پاس کوئی حل تک نہیں ہے۔ بجٹ پاکستان کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،موجودہ صورتحال دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کی کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی وژن ہے آپکے بجٹ میں کیا تیاری ہے؟ کرونا وبا کیلئے کیا رکھا ہے،جب آپ جانتے ہیں کہ یہ پھیلے گا تو پھر آپ نے کیا کر رکھا ہے، کیا آپ نے ڈاکٹروں ، نرسنگ اسٹاف کیلئے رسک الائونسز دئیے، انتہا پسندی کے بارے میں ہم نے آپ کو خبردار کیا تھا ۔ بلاول نے اپنے طرز تکلم سے خود کو بھٹوز کا ہر حوالے سے درست جاں نشین ثابت کردیا ۔وہ ایک بصیرت افروز لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔انہوں نے عوام کو گرویدہ کرلیا۔کل تک قوم کو متبادل کی تلاش تھی جو بلاول کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔انکے سیاسی وژن ،اور عوامی مشکلات سے آگاہ ہونے کا اندازہ ان کی ہدایات کی روشنی میں پیش کئے جانے والے سندھ کے بجٹ سے ہوسکتا ہے جس میں کرونا جیسے نامساعد حالات میں ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں۔مرکز اور دیگر صوبوں نے اس میدان میں بلاول کے مقابلے میں پسپائی اختیار کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن