ایم کیو ایم کے سابق رہنما محمد انور کے الزامات کے بعد حسب توقع تردید سامنے آئی ہے۔ ندیم نصرت اور عشرت العباد نے الزامات کی تردید کی ہے۔ یہ معاملہ الزام لگانے یا تردید کرنے سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ایسے معاملات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔ محمد انور کے بیانات ایسے نہیں ہیں کہ نظر انداز کیا جا سکے۔ ویسے یہ نئی بات نہیں ہے متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے ماضی میں بھی ایسی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ الطاف حسین کے بیانات کی ملکی میڈیا پر پابندی بھی اسی تناظر میں ہے۔ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک میں ان کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اب محمد انور کھلے ہیں اس کے بعد سب سے زیادہ مسائل متحدہ قومی موومنٹ کے ان لوگوں کے لیے ہیں جو پاکستان میں رہ کر سیاست کر رہے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، قانون سازی کرتے ہیں، اہم قومی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ انتہائی حساس دستاویزات تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔ ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے افراد کی وفاداری پر سوال اٹھے یا ان کی وفاداری کسی بھی وجہ سے مشکوک ہو جائے تو اس کے بعد ریاست کے اداروں کو مصلحت سے کام لینے کے بجائے ایسے الزامات کی تہہ تک جانا چاہیے بلکہ ریاستی اداروں سے پہلے ان کے ووٹرز کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ ان کے سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے مکمل تحقیقات کی جائیں اور نتائج سب کے سامنے رکھے جائیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں نہیں خود آگے بڑھ کر خود تحقیقات کے لیے پیش کرنا چاہیے تاکہ ایک ہی مرتبہ ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے والوں، ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والوں کے نقاب اتر جائیں۔ یہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی خود کو پاکستانی کہے، پاکستان کے عوام کی قیادت کرے، پاکستان کے اہم رازوں سے واقف ہو اور وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت سے پیسے لیتا رہا ہو اور ہم اسے ایک غلطی سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ اس سے بڑی غداری کیا ہو گی کہ ہمارے درمیان بیٹھ کر پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ مل کر ہمارے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہو اور پردہ اٹھنے پر اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ کراچی کے حالات کیوں خراب رہے، کیوں کراچی میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا، کیوں کراچی جلتا رہا اور کراچی کے محافظ بیبس نظر آئے، محمد انور کے بیانات کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو سارا کھیل سمجھ آتا ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہر دور میں حکمرانوں نے کیوں ایسے غداروں کو مکمل آزادی دیے رکھی۔ برسوں ایم کیو ایم میں رہنے والے اور الطاف حسین کی ہر آواز پر لبیک کہنے والوں کو کس طرح بے قصور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت سے پیسے لے کر کراچی کا امن تباہ کیا جاتا رہا ہے تو اس مکروہ کھیل میں شامل افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
یہ صورتحال ان تمام سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں، میڈیا سب کے لیے چیلنج ہے۔ اس قومی مسئلے پر سب کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں مکمل اور شفاف تحقیقات کے بغیر کسی کو گڈ ایم کیو ایم یا بیڈ ایم کیو ایم نہیں کہا جا سکتا۔ وہ لوگ جو پی ٹی ایم کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں کرتے ہیں انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی اظہار آزادی سے مشروط ہے جو لوگ پاکستان کے خلاف کام کریں، پاکستان کے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کریں وہ کروڑوں پاکستانیوں کی آزادی کی مخالفت کر رہے ہیں ان ملک دشمنوں کے معاملے آزادی اظہار کی بیساکھیوں کو سہارا نہیں دینا چاہیے۔ بالکل اسی طرح بلوچستان کے چند علیحدگی پسندوں کے خیالات کو بھی آزادی اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ ہمیں ایسے تمام عناصر کے خلاف بے رحمانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان سب کی حقیقت عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو یہ جاننے میں آسانی ہو سکے رہنمائی کے بھیس میں رہزنی ہوتی رہی ہے۔