سید منور حسن صاحب کے سانحہ ارتحال کو ایک سال گزر گیا۔سید منورحسن صاحب جماعت اسلامی کے پہلے امیرتھے جو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ62ء میں منسلک ہوئے جو میری پیدائش کا سال ہے۔اسی طرح وہ پہلے امیر جماعت تھے جن کواسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی دونوں میں بطورکارکن اور بطور قائد(ناظم اعلیٰ اور امیر جماعت)کام کرنے کا موقع ملا۔سید منورحسن بے انتہا صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ہمیشہ تنظیم پر فوکس کرتے اور اسکے استحکام پربھرپور توجہ دیتے۔تقویٰ ،للہیت اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت انکی تقریروں کے مستقل موضوعات تھے۔سید مودودی کے لٹریچر کو انہوں نے نہ صرف پڑھا تھا بلکہ ان کی تقریروں میں اسکے اثرات نہایت نمایاں رہتے تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلقات اور اپنے عہدکے لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔جب بھی پشاور آتے تھے تو جماعتی مصروفیات سے فارغ ہوکر وارث خان ایڈووکیٹ کے ہاں قیام کرتے تھے جو انکے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔
سید منورحسن صاحب نظم و ضبط اور وقت کے پابند تھے۔یہی وجہ ہے کہ انکی دن بھر کی مصروفیات اور دورہ کا شیڈول جس طرح کاغذ پر ہوتاتھا ،اسی طرح اس کی پابندی کرتے تھے اوردوسروں سے بھی کرواتے تھے۔ میں نے انکے ساتھ نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان کے طور پرکام کیا۔خود ہی ایک دن ازراہِ مذاق فرمانے لگے کہ ’’ نائب امیر تو بہت بے بس ہوتا ہے اور اسکے پاس کوئی اختیارنہیں ہوتا‘‘اسی طرح مسکرا کرفرمایا کہ ’’آپ کی بے بسی پر مجھے ترس آتا ہے‘‘
ہم نے اکٹھے ملک بھر کے دورے بھی کیے۔ایک بار کوہاٹ کے اجتماع ارکان میں شریک تھے۔مجھ سے پوچھا کہ ’’یہاں کیا بات کرنی ہے‘‘میں نے عرض کیا کہ یہاں تنظیمی مسائل ہیں،ارکان کے درمیان مسائل ہیں، بیت المال کمزور ہے اور پوری جماعت ایک دائرے میں گھوم رہی ہے۔انکی تقریر سے پہلے امیر ضلع نے اجتماع میں انہی تینوں موضوعات پر بات کرتے ہوئے ارکان جماعت کو خوب لتاڑا۔ارکان کو آپس میں تعلقات بہتر بنانے ،بیت المال پر توجہ دینے اور اپنے مخصوص دائروں اور خانقاہوں سے نکل کر کام کرنے کے خوگر بننے کی ہدایات جاری کیں۔اس موقع پرسید منورحسن نے مجھ سے پوچھا ’’مزید کوئی بات ہوتو‘‘۔ سید صاحب پشاور تشریف لائے ،ہم پانچ چھ لوگوں نے انکا استقبال کیا،دفتر میں بیٹھ گئے۔میرے علاوہ سب نے اپنے اپنے موبائل فون نکالے اور مصروف ہوگئے۔سید صاحب نے سب کو دیکھا اور مجھ سے پوچھا ’’ آپکے پاس موبائل فون نہیں ہے ‘‘اس پروہ سب شرمندہ ہوگئے اور اپنے موبائل فون جیبوں میں ڈال لیے۔
خواہش کے باوجود سیدابوالاعلیٰ مودودی سے میری ملاقات نہ ہوسکی لیکن ان کی کتابوں کی ہر لکیر میں ان کا عکس اور انکی شخصیت اور مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس طرح انکے کسی فقرے میں کوئی کجی نہیں ڈھونڈی جاسکتی، اسی طرح انکی شخصیت بھی اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال تھی۔انکے لٹریچر نے میرے اور میرے جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگیوںکی تبدیلی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
مجھے میاں طفیل محمد صاحب سے بھی نشست و برخاست کا موقع نہیں ملا۔البتہ کچھ پروگراموں میں انکو سنا،ان سے ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ خصوصی طور پر انکے آخری ایام میں جب انکی بینائی بھی نہیں رہی تھی وہ منصورہ مسجد میں نماز ادا کرنے آتے تھے ،کمزوری کے باوجود بھی وہ استقامت اور خشوع وخضوع کے ساتھ نمازوں میں کھڑے رہتے تھے۔ اگرچہ شریعت نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی سہولت دی ہے،ہم نے انکو کبھی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔کارکن انکی شخصیت میں سید مودودی کا پورا عکس موجود پاتے تھے۔جن لوگوں کا ان کے ساتھ ملنا جلنا تھا یا جن کو انہیں قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملاوہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ بالکل صاف گو اور سیدھے انسان تھے ،انکی زبان ہمیشہ انکے دل کی ترجمان ہوتی تھی۔وہ حاضر و موجود سے بے پروا ہوکر اپنے موقف کا اظہار کرتے تھے اور اس پر جمے رہتے تھے۔
مجھے قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ انکے دونوں پیش روئوں کی نسبت زیادہ وقت گزارنے اور ملاقاتوں کا موقع ملا۔قاضی حسین احمد صاحب بھی ایک داعی الی اللہ اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔قاضی صاحب جغرافیہ کے گریجویٹ تھے اور دنیا بھر کے ممالک کے حالات و واقعات اور وہاں کی اسلامی تحریکوں کی صورتحال کو اس طرح جانتے تھے جیسے آدمی اپنے ہاتھ کی لکیروں پہچانتا ہے۔ جماعت اسلامی کیلئے باعث افتخار ہے کہ اس زمانے کی سب سے بڑی استعماری طاقت روس کیلئے افغانستان کو قبرستان بنانے اور انکے نظریات کو پہاڑوں میں دفنانے میں قاضی صاحب کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی کو اپنے ایک خاص دائرے سے باہر نکالنے اور عوام الناس تک اپنی دعوت پہنچانے کیلئے وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک محنت کرتے رہے۔
امیر جماعت کے انتخاب کے بعد 2014ء میں جب میں منصورہ سے دیرجارہا تھا تو راستے میں سید منورحسن صاحب کا فون آیا اور پوچھا کہ آپ کہاں ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں گائوں جارہا ہوں اور اس وقت اسلام آباد میں ہوں۔انہوں نے فرمایا کہ ’’ آپ کو امیر جماعت منتخب کرلیا گیا ہے ،آج سے آپ میرے امیر ہیں‘‘۔ میں اس وقت فرنٹیئرہائوس اسلام آباد میں تھا۔ انہوں نے مجھے اتنی دعائیں دیں جس طرح سفر پر جاتے ہوئے ماں اپنے بیٹے کودعائیں دیتی ہے۔ جب میں بحیثیت امیر جماعت حلف اٹھانے منصورہ آیاتو انہوں نے جس طرح مجھے حوصلہ دیا اور جس محبت کا اظہار کیا اور دائیں بائیں ساتھ دینے کا اقرار کیا اس سے میری بے انتہاڈھارس بندھ گئی۔ہم نے ان کو ایک کارکن کے طور پربھی دیکھا اور ایک قائد کے طور پر بھی ، جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ ذمے داری میرے کاندھوں پر پڑی تو انھوں نے مجھ سے کہاکہ اب میری ذمے داری ہے کہ میں ثابت کروں کہ ایک کارکن کیسا ہوتا ہے۔
سید منور حسن ۔۔استقامت کا پیکر
Jun 23, 2021