نیویارک کے فلم فیسٹیول میں تین ایوارڈز جیتنی والی فلم ساز نگہت شاہ کی شارٹ فلم دریا کے اس پار میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی کہ دو ہزار سات سے دوہزار سولہ تک چترال میں پانچ سو لوگوں نے خود کشیاں کیوںکیںَ نگہت شاہ کو داد دیتے ہیں جس نے اس خطر ناک بیماری کو اجاگر کیا۔ یہ فلم عوام کے ساتھ حکمرانوںکو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خود کشیاں ہر دور میں ہر ملک میں ہوتی رہی ہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں ۔ ان خود کشیوں کو روکنا ہم سب پر فرض ہے ۔اس میں کوئی ذات پات ،کوئی رنگ نسل ،کوئی مذہب ،کسی فرقے کو نہ دیکھا جائے ، اسے اس فعل سے روکا جا ئے۔ اسلام میں خود کشی حرام ہے ۔ ا ﷲ تعالی ایسے بندوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے موت کی دعا مانگے اورجو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرے ۔ جو لوگ خودکشی کرنے والوں کے لئے حالات پیدا کرتے ہیں یہ قاتل سمجھے جاتے ہیں ۔اس خطرناک مرض کونفسیاتی بیماری کانام دیا گیا ہے۔اسے شیزوفیرنیا بھی کہتے ہیں پھر جب اس کا علاج نہیں ہوتا تو انجام خود کشی کی شکل میں آتا ہے۔شیزو فرینیا نفسیاتی بیماری کا علاج ممکن ہے مگر ہم میں سے اکثر اس مرض کو بیماری سمجھتے نہیں ۔ اس بیماری کی ایک وجہ غربت جہالت اور شعور کی کمی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا۔ دوسری وجہ وہ شہری ہیں جو جن کی فیملی نہیں چاہتی کہ کسی کو پتہ چلے کہ یہ نفسیاتی مریض ہے ۔ اس بیماری کا مریض ڈاکٹر کے پاس جانا پسند نہیں کرتا ۔یہ جہالت ہے ۔اس بیماری کو پڑھے لکھے افراد چھپا نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ڈاکٹر سے علاج نہیں کراتے ۔ہماری اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی پوچھا کہ یہ کیسے پتہ چلے کہ اس بندہ کو نفسیاتی بیماری ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ ایسے مریض کی علامات دو طرح کی ہیں ِ یعنی منفی اور مثبت … جب اس کے اس پاس کوئی بھی نہ ہو تو اسے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ مریض کو یہ آوازیں حقیقی لگتی ہیں۔مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیت نہ ہو ۔مریض کو لگتا ہے کہ ان کے خیالات کو کوئی نکال لیتا ہے۔ یا ان کے ذہین میں جو خیالات ہیں اس کے اپنے نہیں ہیں ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام ان سے کرواتا ہے ۔مریض کے لئے کاموں اور باتوں پر توجہ دینا مشکل ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے دماغ پر کوئی دھند سی چھائی ہوئی ہے۔ منفی علامات یہ کہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کی زندگی میں دلچسپی ، توانائی ،احساسات سب ختم ہو گئے ہوں ۔ انہیں کسی بات سے بہت خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔یہ علامات دماغی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ایسا ذہنی دبائو کی وجہ سے بھی ہو تا ہے۔ایسے مریض علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔اگر ان کا علاج نہ ہو تو پھر یہ خودکشی کی جانب بھی جا سکتے ہیں َ۔ایسے مریضوں کو علاج کیلئے اسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ُپڑتی ۔گولیاں ، سیرپ ، کیپسول دوا کے طور پر دئے جاتے ہیں جس سے تین چار ہفتوں میں ہی یہ نارمل ہو جاتے ہیں َ۔مریض کے ساتھ جھگڑا نہ کریں اس سے بحث میں نہ الجھیں َ۔ سائیکا ٹسٹ سے ملیں اور علاج کروائیں َ۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب ہم طالب علم تھے بعض دفعہ نیند نہیں آتی تھی ،پڑھنے کو دل نہیں چاہتا تھا تو ہم خود ماہر نفسیات کے پاس اپنا علاج کرانے جاتے تھے ۔ وہ ہمارا علاج کرتے او ہم ان کے علاج سے شفایاب بھی ہو جا تے ۔ اب اگر یہی سوچتے رہتے کہ ہمارے دیگر کلاس فیلو ہمارے متعلق کیا سوچیں گے تو علاج نہ کرواتے اور ہم ڈاکٹر نہ بنتے مریض بن جاتے مگر ہم علاج سے ڈاکٹر بنے ۔ ہمارے ہاں یہ بیماری عام ہوتی جا رہی ہے۔جسے ہم سنجیدہ نہیں لیتے ۔ اس بیماری سے فیملی لائف بھی ڈسٹرب ہوتی ہے ۔طلاق کا رجحان ہے ۔کئی پڑھے لکھے بیماری کے ہاتھوں اپنا ٹیلنٹ برباد کر دیتے ہیں ۔ یہ بیماری اب اسمبلی ممبران تک پہنچ چکی ہے ۔یہ غصے کو کنٹرول نہیں کر پاتے !ہم نے دیکھا کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بجٹ بک کو پڑھنا ہے یا اسے پتھر اینٹوں کی طرح دوسروں کو مارنا ہے ۔اسمبلی میں بحث کرنی ہے یا ساتھیوں کو گالیاں دینی ہیں ۔یہ وہ اشاریں ہیں جو شو کرتے ہیں کہ بہت سے ممبران اسمبلی اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں ۔ اگر ایسا عمل کسی کے اشارے پر کیا ہے تو اور بات ورنہ اشارہ کرنے والے کو بھی علاج کی اشدضرورت ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان سات ایم این اے کی نشان دھی کر دی تھی ۔ انہیں اسمبلی میں داخل ہونے پر پابندی تو لگا دی تھی کیا اچھا ہوتا کہ انہیں نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس جانے کا مشورہ بھی صادر فرما دیتے اور کہتے جب تک ڈاکٹر انہیں کلیئر نہیں کر یں یہ اسمبلی کی کاروائی میں حصہ نہیں لے سکیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ان کی وجہ سے پہلے ہی ایک خاتون ممبر اسمبلی زخمی بھی ہو چکی ہیں ۔اگر ان ممبران کا علاج نہیں ہوا تو یہ خطر ناک زون میں داخل ہو کر اپنے اور دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں ۔اسے سیریز لینا چاہیے لہذا علاج کرانا نہایت ضروری ہے ۔اب ڈر ہے کہ ان کے گھر والے انہیں کسی بابا والے کے پاس جن نکلوانے نہ لے جائیں کہ ان کو جن پڑ تے ہیں یا ان پر جن کا سایہ ہے یا ان کے دوست یا ان کے گھر والے انہیں پیروں فقیروں پر کئی نہ لے جائیں ۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے مریضوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے ۔ بد قسمتی ہے صحت کے لئے اتنا بجٹ نہیں رکھا جاتا جتنا ہتھیاروں کے لئے رکھتے ہیں ۔اس ملک میں کرونا مریضوں سے زیاد ہ تعدا د نفسیاتی مریضوں کی ہے ۔ یہ بیماری اب سیاست دانوں کے ساتھ ہر ادراوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے ۔سوچا جائے یہ بیماری اگر شہریوں میں پھیل گئی تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ کیا ابھی تک چترال کی خودکشیوں کو روکنے کے لئے کوئی کام شروع ہوا ہیکیا ڈاکٹر وہاں پہنچ چکے ہیں ۔ لگتا ہے کچھ نہیں ہوا۔ ۔ عام آدمی جو اس بیماری سے اپنا ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے اسے ہم مرشد اور پہنچی ہوئی ہستی مان کر اسے مشورہ شروع کر دیتے ہیں ۔یا پھر ہم انہیں جن کے چکر وںمیں پیروں کے پاس لے جاتے ہیں مگر ڈاکٹر سے علاج نہیں کرواتے ۔ حکومت ایسے بیماری والے مریضوں کیلئے ان پیروں پر فوری پابندی لگا ئے۔ سنجیدگی سے اس بیماری کے سد باب کیلئے حکومتی سطح پر کام کیا جانا نہایت ضروری ہے۔