اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران حکومتی ارکان آپس میں الجھ پڑے۔ تحریک انصاف کے سیف الرحمن کی بجٹ پر تقریر کے دوران نور عالم خان پارٹی ارکان سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ سیف الرحمن نے اپنی جماعت کے رکن اسمبلی نور عالم خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری تقریر کے دوران مداخلت نہ کریں۔ اپنی ہی جماعت کے رکن کی طرف سے ٹوکے جانے پر نور عالم خان نے برہمی کا اظہار کیا۔ ان کے اور سیف الرحمن کے درمیان تلخ کلامی بڑھ گئی، جس پر نور عالم خان نے کہا کہ آپ تقریر کرکے دکھائیں۔ اس دوران ایک دوسرے کو دھمکیاں اور دھکے بھی دیئے گئے۔ پی ٹی آئی اراکین کے آپسی جھگڑے کے پیش نظر پینل آف چیئر امجد نیازی نے اس دوران اپوزیشن رکن آغا رفیع اللہ کو فلور دے دیا۔ اس پر آغا رفیع اللہ نے توجہ دلائی کہ جناب چیئرمین، یہ آپس میں لڑرہے ہیں، میرے بولنے سے پہلے آپ ہائوس ان آرڈر کریں۔ اس سے قبل سیف الرحمان نے کہا کہ کراچی میں لوگوں کو پانی نہیں مل رہا، میرے حلقے میں 18ویں ترمیم ہسپتال اور ڈگری کالج کے آڑے آئی۔ این اے 242سے پورے کراچی کو گزر کر پانی جاتا ہے مگر میرے حلقے میں نایاب ہوگیا ہے۔ حکومتی ارکان نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دفاعی بجٹ میں اس طرح اضافہ نہیں کرسکتے جس طرح ہمسایہ ممالک نے بڑھایا، جس کی بڑی وجہ قرضوں کی ادائیگی ہے۔ جبکہ اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے چوتھے بجٹ میں بھی غیر حقیقت پسندانہ اہداف رکھے ہیں۔ ملک کے معاشی مسائل کا بنیادی تعلق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ ریاست کے نظام کے ساتھ ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ ہم 2ہزار ارب روپے سے زیادہ اس وقت قرضوں کی مد میں دے رہے ہیں جو ہم نے نہیں لیے۔ یہ قرضے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے لوگوں نے لئے تھے۔ آصف علی زرداری کے دور حکومت سے لے کر (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کے دور اقتدار تک ملک کا قرضہ 26ہزار ارب روپے ہوگیا۔ 2008ء میں جب آصف علی زرداری نے صدارتی منصب سنبھالا اور جب نواز شریف کی حکومت آئی تب 190ارب روپے لازمی ادائیگی پاور پلانٹس کو کرنی تھی۔ بجٹ میں 700ارب روپے سے زائد سندھ حکومت کو جارہا ہے، اپوزیشن ابھی سے دھاندلی کا واویلا کررہی ہے ، انہیں پتا ہے کہ اگلے پانچ سال بھی عمران خان کے ہیں۔ دو خاندان ہیں ایک پنجاب سے اور ایک سندھ سے پیسہ باہر بھیجتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا کہ ملک کے معاشی مسائل کا بنیادی تعلق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ ریاست کے نظام کے ساتھ ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد کی بجائے بیس فیصد اضافہ کیا جائے۔ بجلی گیس اور دیگر اشیا ضروریہ مہنگی ہوں گی۔ احسن اقبال نے کہا کہ کون چور ہے اور کون دیانتدار اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے۔ اجلاس میں سرکاری ارکان بھی حکومتی پالیسیوں پر برس پڑے۔ پی ٹی آئی کے رکن میجر (ر) طاہر صادق نے کہا کہ بجٹ میں 3ہزار ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہے، مجھے بتائیں کس طرح اسے پورا کریں گے؟۔ وزیراعظم عمران خان تو تبدیلی لانا چاہتے ہیں لیکن ان کے معاونین خصوصی کا گروپ تبدیلی نہیں چاہتا ہے۔ بیوروکریسی اور کرپشن کو کنٹرول نہ کیا تو اگلا الیکشن ہم سب نہیں جیت سکیں گے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی راحت امان اللہ بھٹی نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان کو معاشرے میں بڑھتے ہوئے منشیات کے رجحان پر قابو پانے، لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے سمیت دیگر خدمات کے لئے اپنا ذاتی کردار ادا کرنا ہوگا۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے رکن محمد جمال الدین نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے موقع پر ہم سے پولیس بھرتیوں اور یونیورسٹیوں سمیت جو دیگر وعدے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ تجاویز کے لئے پری بجٹ سیشن ضرور ہونا چاہیے، آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط ایوان میں پیش کی جائیں، ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ 25فیصد کیا جائے اور کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے بڑوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن راؤ محمد اجمل خان نے کہا کہ ہم نے مل کر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے۔ فیض الحسن شاہ نے کہاکہ اس ملک میں کوئی غربت نہیں ہے، مانگنے والے کو پچاس روپے دیں تو پھینک دیتا ہے، یہ غربت ہے۔ حکومت چھوٹا موٹا ریلیف دیتی ہے لوگ خود کوشش کرتے ہیں۔ رشوت پہلے سے زیادہ، کمیشن مافیا پہلے سے زیادہ سرگرم ہے۔ تحریک انصاف کے رکن نور عالم خان نے کہا کہ بجٹ کے دوران 4 روز ایوان میں ہنگامی صورتحال تھی جو بہت افسوسناک تھا۔ ایوان میں اراکین کی جانب سے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دی اور غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا گیا۔ گورنمنٹ والے اراکین عمران خان کے خلاف بات نہیں سن سکتے۔ اپوزیشن آصف علی زرداری اور نواز شریف کے خلاف نہیں سن سکتے لیکن عوام کے بارے میں بات نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ہے۔ ایکسپورٹ کیسے ہوگی جب کارخانوں کو بجلی مہنگی دیں گے۔ احساس پروگرام تو بنایا اسکے بدلے بجلی یا پٹرول سستا کر دیتے تو بہتر ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو بھکاری نہ بنائے۔ میں نے جب پہلے تنقید کی تو مجھے نیب میں بھیج دیا گیا اور جعلی کیسز بنائے گئے۔ جب نیب سے بھی دال نہیں گلی تو کہا کہ تقریر سخت نا کیا کریں۔
قومی اسمبلی ، حکومتی ارکان آپس میں الجھ پڑے، دھکے، دھمکیاں ، بجٹ پر تنقید: فواد چودھری
Jun 23, 2021