یہ سب ایک دم نہیں ہو گیا۔ 75 سال سے پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ لیکن دشمنوں کا ہر حربہ ناکام ہو گیا۔ سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کا مقابلہ فوج اور آئی ایس آئی نے جواں مردی سے کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت بھی بن گیا۔ پاکستان دشمن عالمی طاقتوں نے پاکستان کو 2025ء تک دنیا کے نقشے سے ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور وہ بتدریج اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ آئیے اِک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کے خلاف پہلی سازش انگریزوں اور ہندوؤں نے مل کر کی اور مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے۔ کشمیر کو ہم 1948ء میں ہی حاصل کر لیتے مگر کس کے ا یماء پر اسے اقوام متحدہ کے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان روس جانا چاہتے تھے مگر کس نے ان کا رُخ امریکہ کی طرف موڑ دیا۔ جمہوریت پر پہلا شب خون آمر ایوب خان نے مارا۔ آخری ایام میں بانی پاکستان قائداعظم کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تب سے ہی پاکستان کے مخلص رہنماؤں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ آمریت کی حمایت اور جمہوریت کی مخالفت میں مادرِملّت کی وہ کردار کشی کی گئی کہ تاریخ آج بھی اس پر شرمندہ ہے۔ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور پیرزادوں نے ایوب خان کی حمایت کی اور خوب دھاندلی کر کے ایوب خان کو جتوایا گیا۔ جب ایوب خان سے مطلوبہ کام لے لیا گیا تو انہیں رسوا کر کے حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ پتہ نہیں سنیارٹی کا معاملہ تھا یا کسی بیرونی اتھارٹی کا فیصلہ کہ یحییٰ خان آ گئے۔ انکی مصروفیات اور مشغولیات کے بارے کیا بتائیں، رہنے ہی دیں۔ بھٹو جمہوریت کا عَلم اٹھا کر آئے اور غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ انہوں نے مسلم اُمہ کو متحد کرنے اور ایٹم بم بنانے کی طرف پیش رفت کی تو ضیاء الحق کے ذریعے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ضیاء الحق اور آئی ایس آئی کے ذریعے افغانستان میں روس کو شکست دی۔ جب ضیاء الحق اور آئی ایس آئی سے خطرہ محسوس ہوا تو ضیاء الحق کو طیارے کے حادثے میں رخصت کر دیا گیا۔ پھر نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی باریاں لگوائی گئیں۔ دونوں نے بھارت سے دوستی کی کوششیں کیں تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے اور دونوں ملک اسلحہ خریدنے کے بجائے عوام کو خوشحالی کی طرف توجہ دے سکیں۔ اس کوشش میں دونوں کچھ حدیں زیادہ ہی پھلانگ گئے۔ نوازشریف نے بطور وزیراعظم ایٹمی دھماکے کیے تھے اس لیے سزا تو بنتی تھی۔ ایک اور آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نوازشریف پر مقدمات قائم کر کے انہیں جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر محفوظ بنایا تھا۔ سزا تو ان کی بھی بنتی تھی بہت سے اندرونی دباؤ اور مخالفت کی وجہ سے پرویز مشرف انہیں امریکہ کے حوالے تو نہ کر سکے لیکن جتنا رسوا کر سکتے تھے کیا اور مرتے دم تک وہ نظربند رہے۔ وہ اس سلوک پر بہت افسردہ تھے اور کہتے تھے کہ مجھے ایٹم بم بنانے کی یہ سزا ملے گی تو میں ایٹم بم بنانے کے بجائے تعلیم یا کسی اور شعبے میں کام کرتا۔ ان کی وفات پر کسی اہم شخصیت نے جنازے میں شرکت نہیں کی اور تدفین کے حوالے سے بھی شرمناک صورتحال پیدا کی گئی۔مشرف کا کام مکمل ہوا تو ان پر غداری کے مقدمے بنے اور وہ خود جلاوطن ہونے پر مجبور ہو گئے اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ انہیں وطن واپس لا کر انکی وفات پر انہیں باعزت طریقے سے تدفین کیلئے کوشاں ہے۔ بینظیر بھٹو جمہوریت کی علامت تو تھیں چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہلاتی تھیں۔ قصور تو انہوں نے بھی کوئی کیا ہی ہوگا لہٰذا وہ بھی سازش کا شکار ہوئیں اور لیاقت علی خان کی طرح راولپنڈی میں شہید کر دی گئیں۔ صلے میں آصف زرداری کو صدارت کا منصب عطا ہوا۔ یہ کریڈٹ البتہ ان کو جاتا ہے کہ اس وقت انہوں نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر ملک کو انتشار و افتراق سے بچا لیا تھا۔
نوازشریف دوبارہ حکومت میں آئے تو لوڈشیڈنگ ختم کی۔ بھارت سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی۔ سی پیک پر زور و شور سے کام شروع کیا سو ان کا جانا بھی ٹھہر گیا اور مقدمات کی بھرمار میں سے بڑی مشکل سے لندن جانا ممکن ہوا۔ عمران خان کا حکومت میں آنا بھی ایک عالمی سازش قرار دیا گیا۔ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں قرضے تو بہت زیادہ لیے لیکن انفراسٹرکچر کے حوالے سے کوئی کام نظر نہ آیا۔ روس کا دورہ انہیں مہنگا پڑ گیا۔ اب انکی حکومت ختم ہوئی ہے تو وہ اس کو بھی عالمی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان کا آنا سازش تھی یا ان کا جانا سازش کا نتیجہ، شاید کچھ عرصے تک صورتحال واضح ہو جائے یا بے شمار قومی رازوں کی طرح یہ بھی ایک راز ہی رہے۔(جاری)
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
Jun 23, 2022