وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ مشکل حالات میں ذمہ داری سنبھالی ہے اور اس کو نبھائیں گے، ہم نے مشکل فیصلے کئے ہیں‘ مزید مشکل فیصلے کرنا پڑے تو بھی کرینگے تاکہ معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے، ان فیصلوں سے مستقبل میں اچھا وقت بھی آئیگا۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمیں جو حکومت ملی اس میں پچھلی حکومت کی بدترین معاشی پالیسیوں‘ عاقبت نااندیشی اور بے انتہاء ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ہمیں بہت بڑا معاشی چیلنج ملا جبکہ اس وقت دنیا میں تیل اور پٹرول کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور دنیا میں معاشی صورتحال بھی انتہائی گھمبیر ہے۔ تمام اجناس کی عالمی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں‘ اسکے باوجود ہم نے تیل کے نرخ بڑھاتے ہوئے سات کروڑ لوگوں کیلئے ریلیف بھی مہیا کیا ہے جس کے تحت انہیں ماہانہ دو ہزار روپے ہیلپ لائن کے ذریعے ادا کئے جا رہے ہیں۔ انکے بقول، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم بجٹ میں غریب آدمی پر پڑنے والا بوجھ بانٹیں گے اور صاحب ثروت لوگوں پر ٹیکس لگائیں گے جس کی بدولت ہم کئی سو ارب روپے اکٹھے کرلیں گے۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسکی انہوں نے اپنے دور میں خود ہی دھجیاں بکھیریں۔ اگر انہیں معاہدہ کرنا تھا تو اسکی پاسداری بھی کرتے۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ جو مشکلات پیش آرہی ہیں‘ وہ سابقہ حکومت کے اعمال کا ہی شاخسانہ ہے۔
عوام کیلئے اب سب سے زیادہ الجھن یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بھی ان پر مہنگائی مسلط کرنے اور آئی ایم ایف سے اسکی شرائط پر بیل آئوٹ پیکیج لینے کے حوالے سے سابق حکمرانوں پر ملبہ ڈالتی اور انکی اقتصادی مالیاتی پالیسیوں پر انہیں کوستی رہی اور عوام کا گلہ کاٹتی رہی جبکہ موجودہ مخلوط حکومت کے قائدین بشمول وزیراعظم بھی پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور دیگر اشیاء کے نرخ بے مہابہ انداز میں بڑھاتے ہوئے اس کا ملبہ پی ٹی آئی حکومت پر ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور عوام کا عملاً کچومر نکل رہا ہے۔ انہیں اشیاء کے نرخ بڑھانے کے پس منظر سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ اپنے اقتصادی مسائل میں ہر صورت ریلیف چاہتے ہیں۔ اپنے ان مسائل کے حل کیلئے ہی عوام نے 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو اقتدار کا مینڈیٹ دیا تھا جنہوں نے عوام کیلئے اقتصادی مسائل کا باعث بننے والے آئی ایم ایف کے قرضوں سے قوم کو خلاصی دلانے اور آئندہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کے دعوے کئے مگر اقتدار میں آتے ہی انہیں آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کی مجبوری لاحق ہو گئی جس کیلئے پی ٹی آئی حکومت نے سرتسلیم خم کرکے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من وعن قبول کیں نتیجتاً ملک میں مہنگائی کے سونامی اٹھنے لگے جس پر عوام مضطرب ہوئے تو پی ٹی آئی حکومت کی مخالف جماعتوں کو منظم ہو کر حکومت کیخلاف تحریک چلانے اور پھر وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع مل گیا۔
یقیناً ان جماعتوں کے قائدین کو مکمل ادراک تھا کہ پی ٹی آئی حکومت ختم کراکے وہ خود اقتدار میں آئے تو انہیں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے پر مکمل عمل اور اسکی ہر شرط قبول کرنا پڑیگی جس سے ملک میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی جو عوام کو مزید مضطرب کریگی اور انہیں حکومت کے مشکل فیصلوں کے نتائج بھگتنا پڑیں گے تو وہ پہلے ہی کی طرح حکومت کیخلاف طوفان اٹھانے کی راہ پر چل نکلیں گے۔ اگر پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے قائدین نے ان حالات کو بھانپ کر بھی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد خود اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا تو اب انہیں سابق حکمرانوں پر ملبہ ڈالنے والی پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی اختیار کرکے پی ٹی آئی قیادت کو رگیدنے کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف کے ذریعے مطمئن کرنے والی عملی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں مگر فی الوقت حکومت کیلئے اپنے مشکل فیصلوں کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نکالنا مشکل نظر آرہا ہے۔ اسکے برعکس مہنگائی کے نئے سونامی اٹھنے کا ضرور امکان ہے۔ اس کا عندیہ اس سے ہی ملتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط لینے کی خاطر معاہدے کی ہر شق پر مکمل عملدرآمد کا یقین بھی دلا رہی ہے اور اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھا رہی ہے جو عوام کو بے بس کرکے انہیں مہنگائی کے عفریب کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سے لامحالہ عوام مزید مضطرب ہونگے اور سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت کے بھی گلے پڑینگے۔
حد تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو کچلنے والا ہر قدم اٹھانے کے باوجود آئی ایم ایف اسکے اقدامات پر مطمئن نہیں اور اسکی جانب سے پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے گزشتہ روز اسی تناظر میں اپنے ایک بیان میں یہ کہہ کر حکومتی بے بسی کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کسی طرح بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں اور اس نے ہماری جانب سے پٹرول مہنگا کرنے کے باوجود معاہدہ جاری رکھنے پر ابھی تک دستخط نہیں کئے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس حوالے سے گومگو کا شکار نظر آتے ہیں جن کیلئے پٹرولیم نرخوں میں مسلسل تین بار اضافے پر عوام تو کجا‘ حکومتی اتحادیوں اور وزیراعظم کو بھی مطمئن کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف اگلے مراحل میں عوام کیلئے اچھا وقت آنے کے معاملہ میں پرامید ہیں تاہم آئی ایم ایف معاہدہ جاری رکھنے کیلئے حکومت کو اپنی ہر شرط پر عملدرآمد کا پابند بنائے گا جس کا حکومتی اکابرین کی جانب سے آئی ایم ایف کو یقین بھی دلایا جارہا ہے تو اگلے مراحل میں بھی عوام کیلئے اچھا وقت آنا اور انہیں مہنگائی کے شکنجے سے نجات ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔
اس تناظر میں حکومت کو اپنا ریونیو بڑھانے کیلئے نئے ٹیکسوں کے معاملہ میں عوام ہی کو فوکس کرنے کے بجائے ان طبقات پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جو ہر قسم کے وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ٹیکس چوری کے عادی ہیں اور حکومتوں میں اپنا اثرورسوخ ہونے کے باعث خود پر کوئی نیا اور بڑا ٹیکس لگنے بھی نہیں دیتے۔ اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف نے میثاق معیشت کی بنیاد پر کفایت شعاری اختیار کی ہے اور اپنی کابینہ سمیت اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کی مراعات میں 40 فیصد تک کمی کی ہے‘ اسکے باوجود مراعات یافتہ طبقات کو سرکاری خزانے سے بے شمار مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں جو تعمیر ملک و ملت کے جذبے کے تحت انہیں یا تو رضاکارانہ طور پر خود ہی واپس کر دینی چاہئیں یا حکومت مؤثر قانون سازی کرکے اشرافیہ طبقات کو حاصل غیرضروری سہولتیں واپس لے لے جس سے حکومت کو یقیناً اربوں روپے کی بچت ہو گی اور پھر آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک کو باہر نکالنے کی راہ ہموار ہو پائے گی۔ اسی طرح ہم ملک کی آزادی اور خودمختاری کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بٹہ لگوانے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ حکومت ان ممالک کے تجربات سے ضرور استفادہ کرے جنہوں نے آئی ایم ایف کے شکنجے سے خود کو باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔