"کارلافے ٹکر" طوائف کے یہاں پیدا ہوئی۔ ولدیت کے خانے میں اس کی ماں ہی کا نام لکھا گیا، 8 برس کی عمر میں اس نے سگریٹ نوشی شروع کر دی اور بمشکل دس برس کی عمر میں اس نے چرس پینا بھی شروع کردی،پھر 1983 کی وہ رات آگئی جب اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر ایک جوڑے سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش میں جوڑے کو ہلاک کر دیا اور دونوں فرار ہو گئے ، چند ہی ہفتوں میں پولیس نے گرفتار کرلیا- مقدمہ چلا اور ٹیکساس کی عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی، جس کے بعد اپیلوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا- اسی دوران اس کا بوائیفرینڈ بیمار ہوکر جیل میں انتقال کر گیا جس کے بعد وہ تنہا رہ گئی۔ جیل حکام کو اس حادثے کا کوئی علم نہیں تھا جس کے بعد اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ وہ لڑکی جو بات بات پر جیل انتظامیہ کو مطعون کرتی تھی وہ اب ذیادہ تر وقت بائبل کے مطالعے میں گزارنے لگی۔وہ جو ہر وقت سگریٹ اور شراب کا مطالبہ کرتی رہتی تھی، اب زیادہ تر روزے
سے رہنے لگی اور اب خدا اور مسیح کے سوا کسی چیز کا نام نہیں لیتی تھی۔ وہ طوائف زادی اور قاتلہ کی جگہ مبلغہ بن گئی۔ ایسی مبلغہ جس کے ایک ایک لفظ میں تاثیر تھی، پھر اس نے جیل ہی میں
شادی کرلی اور تبلیغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ اس کی بدلی ہوئی شخصیت کی مہک کا چرچا جب جیل سے باہر پہنچا تو متعدد اخبارات کے رپورٹر جیل میں آکر اس سے ملے انٹرویوز شایع ہوئے اور امریکہ کی معاشرتی زندگی میں بھونچال سا آگیا، یہاں تک کہ پوپ جان پال نے بھی زندگی میںپہلی بار عدالت میں کسی قاتلہ کی سزا معاف کرنے کی درخواست کر ڈالی-
سزائے موت سے پندرہ روز قبل جب لیری کنگ جیل میں ٹکر کا انٹرویو کرنے گیا تو دنیا نے سی این این پر ایک مطمئن اور مسرور چہرہ دیکھا جو پورے اطمینان سے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا۔ لیری نے پوچھا " تمھیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا"- ٹکر نے مسکرا کر جواب دیا " نہیں! اب مجھے صرف اور صرف موت کا انتظار ہے، میں جلد اپنے رب سے ملنا چاہتی ہوں، اپنی کھلی آنکھوں سے اس ہستی کا دیدار کرنا چاہتی ہوں جس نے میری ساری شخصیت ہی بدل دی-انٹرویو نشر ہونے کے دوسرے روز پورے امریکہ نے کہا: " نہیں یہ وہ ٹکر نہیں ہے
جس نے دو معصوم شہریوں کو قتل کیا تھا، یہ تو ایک فرشتہ ہے جو صدیوں بعد ظاہر ہوتا ہے اور فرشتوں کو سزائے موت دینا انصاف نہیں ظلم ہے رحم کی اپیل " ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول " کے سامنے پیش ہوئی- اٹھارہ رکنی بورڈ نے کیس سننے کی تاریخ دی تو 2 ممبروںنے چھٹی کی درخواست دیدی جبکہ باقی 16 ممبران نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا- بورڈ کا فیصلہ سن کر عوام سڑکوں پر آگئے اور ٹکر کی درخواست لیکر ٹیکساس کے گورنر " جارج بش " کے پاس پہنچ گئے۔ امریکہ کے معزز ترین پادری جیسی جیکسن نے بھی ٹکر کی حمایت کر دی- گورنر نے درخواست سنی، جیسی جیکسن اور ہجوم سے اظہار ہمدردی کیا، لیکن آخر میں یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ مجھے قانون پر عملدرآمد کرانے کے لئے گورنر بنایا گیا ہے، مجرموں کو معاف کرنے کے لئے نہیں، اگر یہ جرم فرشتے سے بھی سرزد ہوتا تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا."
موت سے 2 روز قبل جب ٹکر کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو چیف جسٹس نے یہ فقرے لکھ کر درخواست واپس کر دی کہ اگر آج پوری دنیا بھی کہے کہ یہ عورت کارلافے ٹکر نہیں، بلکہ۔ایک مقدس ہستی ہے تو بھی امریکن قانون میں اس کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے، کیونکہ
جس عورت نے دو بیگناہ شہریوں کو کوئی رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی منصف رعایت نہیں دے سکتا، ہم خدا سے پہلے ان دو لاشوں کے سامنے جوابدہ ہیں، جنہیں اس عورت نے ناحق مار دیا. "
3 فروری 1998ء کی صبح پونے چھ بجے ٹیکساس کی ایک جیل میں 38 سالہ " کارلافے ٹکر " کو زہریلا انجیکشن لگا کر سزائے موت دیدی گئی۔
4 فروری کو جب سی این این سے موت کی خبر نشر ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ضمیر سے پوچھا کہ وہ کیا معجزہ ہے جو امریکہ جیسے سڑے ہوئے بیمار معاشرے کو زندہ رکھے ہوئے ہے، تو میرے حافظے میں حضور سرور کونین ؐ کا وہ فرمان مبارک گونج اٹھا، "اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا" حضرت علیؓ کا بھی قول زریں چمکنے لگا کہ"معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں" "جو عدالتیں دباوّ احتجاج یا حکمرانوں کے اثر و رسوخ سے متاثر ہو کر اپنے فیصلے بدل دیں تو وہ عدالتیں نہیں بادبانی کشتیاں ہوتی ہیں جن کی منزلوں کا تعین ملاح نہیں ہوائیں کرتی ہیں" ہم دیسی لبرلز بھی عجیب مخلوق ہیں۔ کافروں کے معاشی نظام کو اپناتے ہیں اور غربت اور بھوک کا ذمہ دار خدا کو ٹھہراتے ہیں جبکہ ہمارے رب نے قرآن کریم میں کھل کر ہر چیز کو تفصیل سے بیان کردیا ھے
اور ہمارے پیارے نبی ؐ کی احادیث ان کے احکامات کا مکمل احاطہ کرتی ہیں۔ ہم نے ان احکامات کی پیروی کرنا چھوڑ دی ھے یہی سبب ھے کہ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور ہم خوار ہوِئے تارک قرآن ہوکر اسی وجہ سے آج ہم دنیا میں خوار ہو رھے ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اپنے رب کو آخرت میں جواب دہ ہیں ان لوگوں کو نہی جو خود آخرت میں کھڑے ہوکر میرے رب کے حضور خوف سے تھر تھر کانپ رھے ہونگے لہذا قلم وہی لکھے گا جو سچ ھے چاھے ساری دنیا کو برا لگے۔