یونان میںڈوبنے والی کشتی میںجاںبحق ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے ان پسماندہ علاقوں سے ہے جہاں پہ بے روزگاری کا عفریت وہاں کے عوام کو نگل رہا ہے۔ مجبور و بے کس لوگ روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طریقے سے اپنے خاندان کو پالنے، انھیں دو وقت کی روٹی کھلانے، تن پہ کپڑا پہنانے، بیماری میں علاج کروانے کے لیے سہولت دینے کی غرض سے نکلے تھے۔ جنوبی یونان کے ساحل پہ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے تقریباً 700 لوگوں میںسے ابھی تک 12 لوگ بچائے جا سکے ہیں۔ اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے غیرقانونی راستہ اپنانے والے کیا مجرم ہیں؟ یا پھر مجرم وہ ہیں جو بڑے بڑے دعووں کے باوجود عوام کو روٹی، کپڑا ، مکان اور علاج کی سہولت نہیںدے سکے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ اسمگلرز اور ان کے سہولت کار بین الاقوامی مجرم ہیں۔ ڈوبنے والا جہاز لیبیا کی بن غازی بندرگاہ سے غیر قانونی تارکین کو لے کر روانہ ہواتھا۔ ڈوبنے والوں میں 158 کشمیری، 16 ڈسکہ اور 7 افراد منڈی بہاﺅالدین کے شامل ہیں۔ کتنا بہیمانہ سلوک ہے کہ انسانی اسمگلروں نے ان سب کی موت 20 سے 30 لاکھ میں خریدی۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے انٹرایجنسی ٹاسک فورس کااجلاس بھی بلایا۔
کشتی کے حادثے میں جاں بحق افراد اور اس میں سوار بچ جانے والے افراد کے لواحقین انتہائی کربناک لمحات سے گزر رہے ہیں۔ ان کو اطلاعات بہم پہنچانے کے لیے یونان کے آفس سے معلومات کی فراہمی کاعمل تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلرز پہ اپنا شکنجہ تنگ کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر4 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ان اسمگلرز میں سے20 افراد نامزد کر دیے گئے ہیںاور 5 کو گرفتار کرلیاگیا ہے اور گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ امید واثق ہے کہ تحقیقات جلد مکمل کی جائیں گی اور تحقیقات شفاف ہوں گی۔اگر یہ معاملہ دیگر معاملات کی طرح التوا میںپڑ گیا تو یہ موت کا کھیل دوبارہ بھی کھیلا جاسکتاہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جس میں ہمارے مجبور اور بے کس عوام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ایسے سوالات اٹھائے جارہے ہیںکہ ریاستی اداروں نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوئی کام نہیںکیا۔ جولائی2022ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے40 ایجنٹوں کو اشتہاری قرار دیا ہے مگر آج جون2023ءتک ایک بھی گرفتار نہیںہوا۔اب 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اگر وہ بھی ایمانداری سے تحقیقات کر کے مجرموں کو نہیںپکڑے گی اور قانون انھیں قرارواقعی سزا دینے میں تاخیر یا نظراندازی والا معاملہ رکھے گا تو یہ حادثات بار بار دہرائے جائیں گے۔ ماﺅںکی گود اجڑے گی، بہنوں، بیٹیوں کے سہارے سمندر برد ہو جائیں گے۔ نوجوان نسل تباہ ہو جائے گی۔ اہل خانہ کو دفنانے کے لیے خالی تابوت رکھ کے اس پہ مٹی ڈالنی پڑے گی اور والدین ہمیشہ اسی انتظار میں رہیں گے کہ شاید ہمارابچہ گھرلوٹ آئے گا۔ ریاستی اداروںسے بات کریں تو ان کاکہنا ہے کہ ہم صرف اس ایجنٹ کے خلاف رپورٹ درج کرتے ہیں جب کوئی شخص اس کی رپورٹ کرتا ہے کہ میں نے فلاں ایجنٹ کو پیسے دیے لیکن اس نے ابھی تک مجھے بیرون ملک نہیں بھیجا۔
یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی ادارے اس کاروبار کو انسانی اسمگلنگ قرار نہیںدیتے؟ تو یہ سچ ہے۔بحیرہ¿ روم کی خون آشام لہروں نے انسانی جسموںسے اپنی بھوک مٹائی۔یومِ سیاہ منانے کے لیے ایک اور دن کو تاریخ کاحصہ بنادیا۔ اس سے اگلے دن پرچم سرنگوںرہا اور ملک بھر میںسوگ کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان سے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کاآغاز1970ءمیں ہوا۔ تارکین وطن کو ریگولرائز کروا کے آئندہ کے لیے باقاعدہ لائسنس دیے گئے مگر آہستہ آہستہ یہ کام جرم کی شکل اختیار کرگیااور غریب لوگوںسے ایجنٹ لاکھوںروپے لے کے انھیں باہر بھیجتے رہے۔ مستقبل کی فکر میں دیارِ غیر مزدوری کے لیے جانے والے اکثر کسی نہ کسی حادثے کاشکار رہے۔
آنکھوں میںخواب سجانے والے نوجوان اور ان کے اہل خانہ کے لیے یہ حادثہ ایک بہت بڑا المناک سبق ہے۔ سیالکوٹ کے کاشف بٹ نے اٹلی جانے کے لیے ایجنٹ کو27 لاکھ دیے۔ آج کے دور میں جہاں افراتفری، پسماندگی، بے روزگاری پھیل رہی ہے وہاں اپنی زمین جائیدادبیچ کر والدین اپنے بچوںکو غیرقانونی طور پہ بھیجنے کے لیے کیوںمجبور ہیں؟روشن مستقبل کے سہانے خواب تو اجڑ گئے ساتھ میںوالدین کی زندگیاںبھی خون آشام لمحوںکے پنجوںمیںتڑپنے لگی ہیں۔ جو چلے گئے وہ اب کبھی نہیںآئیں گے جو رہ گئے وہ زندہ رہ کر بھی مر جائیںگے ۔ سمجھ نہیںآتا کہ دلاسوںسے کیا ہو گا۔
تڑپنے والوں کے زخموںپہ مرہم کا اب اثرنہیںہو سکتا۔ چاہے ایجنسیاںبند کر دی جائیں چاہے ایجنٹ پکڑ کر انھیں سزا دی جائے۔ جو گود خالی ہو گئی وہ خالی ہی رہے گی۔ ریاست اگر کچھ کر سکتی ہے تو یہ کہ ملکی حالات کو مزید بگڑنے سے بچائے، اپنے ملک میں روزگار دے کر ان مفلوک الحال غریب، سسکتے اور پرامیدنظروںسے دیکھتے ہوئے لوگوںکو ہجرت کرنے پر مجبور ہونے سے روکے اورانسانی سمگلرز کو بے روزگاروں کی زندگیوںسے کھیلنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے ایسی حکمت عملی اپنائے کہ پھر نہ لہریںبپھریں نہ انسانی جانیں سمندر کی خوراک بنیں۔ ان تمام لواحقین کے لیے پوری قوم سوگوار کی کیفیت میں ہے جن کے مستقبل کے روشن چراغ بجھ گئے۔