کچھ عجب نہیں ہوگا اگر متوقع (جب بھی ہوں) الیکشن میں قوم ”پی ٹی آئی“ اور ”پی پی پی“ کو نئے اتحادی کی صورت میں دیکھے۔کراچی حالیہ مثال سامنے ہے۔ یہ آج نہیں مہینوں پہلے کا میرا اندازہ ہے بس رواں سیاست نے اتنا مایوس کیا کہ ایک مختصر وقفہ کیلئے سیاست پر لکھنے کا عمل ختم رکھا۔ سیاست میں واحد چیز جواب رہ گئی ہے وہ صرف اقتدار کا حصول ہے چاہے کتنے ہی ناجائز مراحل سے گزار لو کوئی غم نہیں۔ اچنبھا تو تب بھی نہیں ہوگا اگر ”ن لیگ“ اور ”تحریک انصاف“ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی نظر آئیں سمجھانے کیلئے بہترین مثال موجودہ ”اتحادی صورت“ ہے۔ مزید دانش کیلئے ماضی کے بیانات۔ دعوے۔ وعدوں کی سیاہی نہ ابھی خشک ہوئی ہے اور نہ ہی تصویریں دھندلائی ہیں کچھ بھی نا ممکن نہیں۔برسوں سے ”قومی حکومت“ کی تجویز دیتے آرہے ہیں ا±س پر کافی حد تک عمل موجودہ حکومت کی صورت میں نظر آرہا ہے تو کیا حرج ہے اگر سبھی مل کر دل سے مل بیٹھ کر ”میثاق عوام“ کر لیں ایسا ”میثاق“ کہ بس اب مسائل حل کرنا ہیں۔ پاکستان کا تصور بہترین بنانا ہے۔ عوامی تکالیف کا ہر صورت ازالہ کرنا ہے۔ سب مل کر واحد نکاتی منشور بنالیں ”میثاق عوام“ ویسے بھی اب گنجائش ختم ہو چکی ہے مزید لڑائی۔ عناد کِسی کے بھی مفاد نہیں نہیں۔ ”نئی پارٹی“ کا قیام۔ پانی میں کنکر پھینکنے کے برابر بھی ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ چند روزہ میڈیائی چمک تھی۔ لوگ فوری نتائج کی ا±مید میں دوڑ پڑے۔ شاید مقصد ”پرندوں“ کو ا±ڑنے سے بچانا تھا بقول عوامی رائے کچھ زیادہ ہی جلد بازی دکھائی گئی جبکہ اطلاعات تو کافی سالوں سے گردش کر رہی تھیں۔ جو ہمیشہ حالتِ سفر میں رہتے ہیں ا±نکی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ وفاداری کا پکا وعدہ لیا جائے۔ وعدے کی پاسداری ہوگی تو کوئی بھی حکومت اپنی مدت سے قبل ختم نہیں ہونے والی۔ وفاداری پارٹی منشور پر عمل سے بھی مشروط ہو۔ ”نئی“ کا لفظ ہی مناسب نہیں اِدھر ا±دھر کا مال (ہمہ وقت گردش میں رہنے والا) کبھی ٹک کر بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ ساری زندگی بس حکومت میں گزر جائے ایسا تو کبھی ممکن نہیں ہوتا اگر جمہوریت پر سچ دل سے یقین ہو۔ حالات بدلتے رہتے ہیں بدلاو¿ کو یقینی علم سمجھنے والے کبھی وہ غلطیاں نہیں کرتے جو کل ا±نھیں آنکھوں سے سمیٹنا پڑیں۔ تسلیم اور وفاداری دونوں سب کیلئے ضروری ہیں۔ ہر ایک کی حقیقت کو تسلیم کریں۔ سب کی رائے کا احترام کریں۔ جبراً نفی جبراً رضامندی دونوں پائیدار نہیں ہوتیں ماضی گواہ ہے حالا ت بہت بڑی کروٹ میں ہیں۔ جبراً ر±خ بدلنے کی کوئی بھی قوت نہیں رکھتا۔ ملک۔ اداروں سے وفاداری ضروری ہے وہاں سب سے زیادہ ضروری ”مالک حقیقی“ سے سچی وفاداری ہے۔
ا±سکی تو خبر تھی تقریباً ہفتہ بھر سے زائد زورو شور سے خبروں کی ہیڈ لائن بنا۔ دلوں کو اتھل پتھل کرتا رہا۔ ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی وجود میں آئی پھر ر±خ م±ڑ گیا ہمیشہ کی طرح۔ چونکہ آمد کا پیشگی معلوم تھا اسلئیے حفاظتی اقدامات بھی کر لیے گئے۔ معلومات فراہمی کا بھی انتظام ہوگیا مگر وہ ”م±ڑ“ گیا۔ احتیاطی تدابیر کی وجہ سے نہیں ”حقیقی مالک “ کے حکم سے۔ ایک وہ طوفان ہے جو اچانک آیا بنا اطلاع کے۔ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ م±ڑا ہی نہیں۔ التجائیں۔ دعائیں کیں پر ر±خ نہیں بدلا کیونکہ ”حکم ربی“ تھا اور تازہ کیفیت یہ ہے کہ ابھی تک دلوں۔زندگیوں میں موجود ہے۔ ابھی تک ختم نہیں ہواکیونکہ ہماری زندگی کی سانسوں کے ساتھ تو ج±ڑ گیا ہے۔ بندش ہے تو لازمی ہمارے ساتھ ہی جائے گا۔ تو ر±خ تبھی مڑے گا۔ قارئین ایک طوفان ہے جس کا غلغلہ’بحیرہ عرب“ میں مچا۔ ر±خ ”کراچی “ سے م±ڑا۔ ایک طوفان وہ ہے جوہماری زندگیوں میں آیا دونوں ”اصل حقیقی مالک“ کے حکم سے آئے۔ ایک کا ر±خ بدلا دوسرے کا نہیں تو وہ بھی ”رب ذی شان“ کے حکم سے۔ توقارئین بس دن بھر کی د±عاو¿ں میں برابر یاد رکھیے گا آج سے۔ 5 سال پہلے اور آج کتنا فرق آچکا ہے۔ حالات کس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں مارکیٹ کا موڈ کیا ہے ؟ نرخ کتنے بڑھ چکے بلکہ بڑھتے جار ہے ہیں پہلے چیکینگ۔ روک تھام کا چھوٹا موٹا نظام تھا بھلے کمزور سہی پر مارکیٹ پر ایک موڈ سوار رہتا تھا کہ کبھی بھی کوئی آسکتا ہے چیک کر سکتا ہے۔ ”شکایت“ نام سے بھی لوگ کچھ نہ کچھ خائف رہتے تھے پر اب ”3لاکھ“ سے نیچے تو کوئی عروسی لباس ہی نہیں تھا۔ یوں معلوم ہوا کہ بات لاکھوں کی نہیں بس ہزاروں روپے کی ہے۔انتہائی عام ڈیزائن۔ ہلکا سا کام بس پر قیمت ”5سال“ پہلے بھی قیمت کم نہ تھی۔ برانڈز تو تب بھی مہنگے تھے پر عام ڈیزائینرز پہنچ میں تھے اب وہ بھی پہنچ سے ا±سی طرح د±ور ہو چکے ہیں جس طرح ہماری ”اشرافیہ“ عام آدمی سے اور عام آدمی اسلام کے آفاقی اصولوں سے۔ اچانک ہی بیماری وہ بھی ا±س سطح کی کہ سب کچھ شدید خطرے میں۔ وہ سٹیج کہ بس ”د±عا کریں “والی۔ یقینا د±عا کی قبولیت کا وعدہ ہے پکا وعدہ مگر کب ؟ کِس صورت میں۔ د±عا مانگنے کی ہو بہو صورت یا پھر ا±س سے بڑھ کر عظیم عطا کی خوشخبری۔ تمام تفصیلات بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں (پر یقین نہیں رکھتے بس اللہ ہم سب کو باعزت ہدایت عطا فرما دیں آمین)
قارئین یہ ہے ہماری زندگی کی اصل حقیقت۔ مٹی سے بنے ہیں مگر مٹی ہونا پسند نہیں کرتے۔ مٹی میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ مٹی میں بیٹھے ہوو¿ں کو نظر پسندیدگی۔ التفات سے نہیں دیکھتے۔ جس خمیر سے بنے ہیں ا±س میں جانے کا کِسی کا دل نہیں چاہتا چاہے امیر ہے یا غریب ترین۔ عصرِحاضر ہی میں ہم سب کچھ دیکھتے۔ اِسی کو مانتے ہیں۔ ”یوم آخرت“ ہماری پوری زندگی میں ہے ہی نہیں۔ جو گزر گیا وہ پچھتاوا۔ ا±س کا ہمہ وقت قلق رہتا ہے۔ جو موجود ہے ا±س میں سب ارمان۔ گناہ کرنے کی ہوس حادی رکھتے ہیں اور آنے والا کل۔ بس لمحہ موجود کو ہی دیوتا مانے سب کچھ سمیٹ لینے کی طمع میں مبتلا انسان۔ ہم سب کوشش نہیں کرتے کہ ”موجود“ کو بہتر بنالیں تاکہ یہ بھی کل ہمارے پچھتاو¿ں کی فہرست کو کہیں لمبا کر نہ دے۔