14جو ن کو جیسے ہی یونان کے ساحلی شہروں میں خبر پہنچی کی پاپلوس شہر کے ساحلوں کے قریب گہرے سمندرمیں مچھلیوں کے شکار کیلئے استعمال ہونے والی وہ بڑی کشتی جس میں سینکڑوں کی تعدا د میں غیر ملکی تارکین وطن سوار تھے ۔تین روز سے یہ کشی اندھن ختم ہوجانے کی وجہ سے سمندری لہروں کی زد میں تھی اور یونانی کوسٹ گارڈکی متعد کشتیاں اسے گھیرے ہوئے تھیں ۔ فضاءمیں کوسٹ گارڈ کے ہیلی کاپٹر الگ سے بے یارومددگار کشتی کی نگرانی کر رہے تھے کہ کہیں یہ کشتی غیر ملکی تارکین وطن کو لیکر یونان کے ساحلوں تک نہ پہنچ جائے۔یہ کشتی آخر کار ڈوب گئی توخبر ملتے ہی یونان میں کہرام مچ گیا۔ بین الاقوامی میڈیا اس حوالے سے بے خبر تھا ۔ اس تک خبریں کشتی کے ڈوبنے اور اس پر سوار سینکڑوں افراد کے مارے جانے کے بعد پہنچیں ۔ جبکہ یونان کا مقامی میڈیا خبریں دے رہا تھا کہ انسانی سمگلروں کی ایک بڑی کشتی یونان کے سمندر میں موجود ہے اور یونانی کوسٹ گارڈ کا عملہ کشتی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔کشتی کے ڈوبنے کی خبر ملتے ہی یونان کے شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ سب سے بڑا احتجاجی جلوس ایتھنز شہر میں نکالا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مردوخواتین شامل تھے۔ وہ نعرے لگارہے تھے کہ کشتی ڈوبی نہیں ڈبوئی گئی ہے۔ احتجاج کرنے والوں نے پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے ۔ جن پر یونانی زبان کے علاوہ عربی میں نعرے درج تھے ۔ بینروں اور پوسٹروں پر یونانی کوسٹ گارڈ کو ”قاتل“لکھا گیا تھا ۔ احتجاج کرنے والے مطالبہ کر رہے تھے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو قتل کرنے کے الزام میں کوسٹ گارڈ کے ذمہ دار ان کوگرفتار کیاجائے اور ان پر قتل کے مقدمات چلائے جائیں۔
یہ خبر بھی سب سے پہلے یونان کے میڈیا نے ہی جاری کی کہ ڈوبنے والی کشتی 10جون 2023کو لیبیاکے ساحلی شہر تبوک سے روانہ ہوئی جس پر مصر ، شام، پاکستان ، افغانستان اور فلسطین کے 750 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ یہ کشتی جب دوسرے روز یونانی شہر پاپلوس کے ساحل سے 80کلو میٹر کے فاصلے پر تھی تو اس کی رفتار دم توڑ گئی ۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کشتی کے انجن میں خرابی پیدا ہوگئی ہو۔ اس وقت تک کشتی یونانی کوسٹ گارڈ کی نظروں میں آچکی تھی ۔ کوسٹ گارڈ کی ایک کشتی نے قریب پہنچ کر سمگلروں کی کشتی کے عملہ سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ کشتی کا پیٹرول ختم ہوگیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کشتی کے منزل اٹلی کے ساحل ہیں ۔ تاہم یونانی کوسٹ گارڈ والوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا ۔ انہیں شک تھا کہ کشتی کا عملہ ایندھن ختم ہونے کا بہانہ کر رہا ہے۔ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو یونان کے ویران ساحلوں پر اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ لیکن یونانی کوسٹ گارڈ والوں کو دیکھ کر انہوں نے کشتی کے انجن بند کردیے تاکہ کوسٹ گارڈ والوں کے جاتے ہی وہ انجن اسٹارٹ کر یں اور رات کے اندھیرے میں غیر قانونی تارکین وطن کو پاپلوس کے ساحل پر اتار سکیں چھوٹے بحری جہاز نما کشتی کا نام ”اندریانہ“ بتایا گیاجو مصر میں رجسٹرڈ تھی۔ اندریانہ کے ملاحوں نے یونانی کوسٹ گارڈ والوں سے تیل کی فراہمی کیلئے مدد کی درخواست کی جورد کر دی گئی ۔جس کےبد نصیب کشتی کے ملاحوں نے یونانی کوسٹ گارڈ کی طرف سے انکار کے بعد یورپی یونین میں غیر قانی تارکین وطن کی مدد کے لیے کام کرنیوالی این جی او ” انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین (آئی او ایم) سے رابطہ کیا لیکن یہ ادارہ اندر یان نامی کشتی تک پہنچنے میں نام رہا کیونکہ وہ سمندر میں اس مقام کا تعین نہیں کر پائے تھے جہاں کشتی موجود تھی۔
بعد ازاں انکشاف ہوا کہ اندریانہ کا کھوج سب سے پہلے یورپی یونین کی ایجنسی برائے سرحدی تحفظ Frontexکے طیارے نے لگایا اور بتایا تھا کہ تبوک سے روانہ ہونے والے چھوٹے بحری جہاز نما ماہی گیروں کی کشتی پر سینکڑوں لوگ سوار ہیں اور اس کا رخ اٹلی کی طرف ہے ۔ مذکورہ ادارے نے فوری طور پر اٹالین کوسٹ گارڈ کو اطلاع دی جہاں سے یونان کی کوسٹ گارڈ کو فوری طور پر خبردار کردیا گیا۔ حادثے کے بعد جاری تحقیقات میں یونانی کوسٹ گارڈ والے تسلیم کرچکے ہیں کہ انہیں اندریانہ نامی کشتی کے بارے میں اٹلی کی طرف سے اطلاع ضروری ملی ۔لیکن اس سے قبل گہرے سمندر میں سفر کرنے والے دو کارگو بحری جہاز یونان کے حکام کو اطلاع دے چکے تھے کہ مسافروی سے لدی ہوئی ایک بڑی کشتی برق رفتاری کے ساتھ یونان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اوپر نیچے ہر طرف مسافر لدے ہوئے تھے۔ ان میں خواتین اور کم عمر بچے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
حادثے کے بعد بچ جانے والے مسافروں کا کہنا تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ والے جب کشتی پر آئے تووہ ان سے خوراک اور پانی مہیا کرنے کے لیے گڑ گڑاتے رہے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ کوسٹ گارڈ والوں کے واپس جاتے ہی امداد کے لیے شور مچانے والے پاکستانیوں کو سزاکے طور پر کشتی کے نچلے ڈیک میں منتقل کرنے کے بعد انکے اوپری حصے میں آنے پر پابندی لگا دی گئی۔ بھوک پیاس اور متلی کی وجہ سے یکے بعد دیگرے چھ پاکستانی کشتی ڈوبنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے ۔جس کے بعد ڈیک کے نچلے حصے میں چیخ و پکار شروع ہوگئی لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ۔ کشتی کا رخ کبھی دائیں طرف مڑ جاتا تو کبھی بائیں جانب ۔ اس کیفیت نے سب کومزید بے حال کردیا۔ پھر اچانک کشتی ہچکولے کھانے لگی اور اسی حالت میں ایک رخ پر الٹ گئی۔ اسکے اردگرد یونانی کوسٹ گارڈ کی چھ سے زیادہ پٹرولنگ کشتیوں میں سوار عملہ یہ جانتے ہوئے کہ کشتی کس وقت بھی ڈوب سکتی ہے وہ صرف تماشہ دیکھتے رہے اور اپنے موبائلز ٹیلی فونز میں سینکڑوں انسانوں کے ڈوبنے کے مناظر کو عکس بند کرتے رہے ، اس سے بڑی سنگدلی اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ الگ موضوع ہے کہ پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ کیوں اور کب سے جاری ہے ۔ یہ بھی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کو قرار واقع سزا ملتی ہے یا یہ سلسلہ ماضی کی طرح آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ دنیا کو باور کرانا کا ہے کہ اندریانہ نامی کشتی ڈوبی نہیں اسے ڈبویا گیا ۔ یونانی کوسٹ گارڈ والے مارے گئے سینکڑوں مسافر وں کے قاتل ہیں۔ یہ ہم نہیں یونان کے عوام کہہ رہے ہیں۔ عالمی میڈیا بھی اس کی تصدیق کر چکا ہے تو پھر سوال بنتا ہے کہ ان قاتلوں کو سزا مل پائے گی یا نہیں؟