درویش خدا مست۔۔۔میاں طفیل محمد

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
یہ 1987کا ذکر ہے ،جامع منصورہ لاہور میں محترم قاضی حسین احمد کی بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان تقریب حلف برداری تھی۔میاں طفیل محمد اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر امارت کا بار گراں قاضی حسین احمد کے سپرد کررہے تھے۔اپنے خطاب میں محترم میاں صاحب نے دھیمے انداز میں پوری دلسوزی اور درد مندی سے کہا کہ میں 26اگست 1941کو اسی شہر لاہور میںجماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں شامل تھا ،رکنیت کا حلف اٹھانے اور دستخط  کرنے والے ارکان میں میرا چوتھا نمبر تھا۔میں آج اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس وقت سے لیکر آج تک میری زندگی میں اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے علاوہ کسی اور کام کو کبھی ترجیح حاصل نہیں رہی۔میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر کوئی اور ساتھ نہیں دے گا تو میں مولانا مودودی کا مکمل ساتھ دونگا اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا تو ہم دونوں یہ کام کریں گے۔لیکن مولانا مودودی صاحب ہی ہمیں چھوڑ گئے میں نے انہیں نہیں چھوڑا۔سید مودودی کو یاد کرتے ہوئے میاں طفیل محمد کی آواز رندھ گئی جبکہ پوری مسجد میں ہچکیوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
میاں طفیل محمد مرحوم کی اس پاکیزہ زندگی کے گواہ کروڑوں انسان تھے ،ان کی زندگی تقویٰ ،طہارت قلب اور تزکیہ نفس کا نمونہ تھی  ،اخلاص عمل ،بلندی ء کردار اور دعوت و عزیمت کیساتھ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت سے عبارت تھی۔وہ قرآن پاک کی اصطلاح میں صحیح معنوں میں عباد الرحمن تھے۔اقبال کے مرد مؤ من تھے ،سید مودددی کے مرد صالح تھے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں مرد قلندر اور مرد درویش تھے۔ان کی زندگی کا سفر اگر چہ 95سال کا سفر ہے لیکن اتنی طویل مسافت کا خلا صہ یہی ہے کہ
 ،ع قلندر جزدو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
میاں طفیل محمد صاحب کی زندگی کا آغاز ریاست کپور تھلہ کے ایک گاؤں صفدر پور آرائیاں سے ہوا جہاں ان کی پیدائش نومبر 1913کو دینی مزاج رکھنے والے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ان کے والد گرامی میاں برکت علی ایک سادہ مزاج پڑھے لکھے پرائمری سکول ٹیچر تھے۔میاں برکت علی صاحب پاکستان میں بسنے کے بعد اگرچہ ضلع فیصل آباد میں رہائش پذیر تھے لیکن وہ محترم میاں طفیل محمد کے پاس جب منصورہ قیام پذیر ہوئے تو ان سے کبھی کبھارملاقات ہوجاتی تھی ،وہ بھی سادگی اور محبت کا پیکر تھے۔
میاں طفیل محمد جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے ،انہوں نے 1937میں ایل ایل بی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔وہ ریاست کپور تھلہ کے پہلے مسلمان وکیل تھے۔مگر وکالت کے بجائے انہوں نے دعوت الی اللہ کا راستہ چنا۔
میاں طفیل محمد  1944میں جماعت اسلامی کے قیم یعنی سیکرٹری جنرل بنے،1966سے 1971تک وہ مغربی پاکستان کے امیر رہے۔نومبر 1972میں وہ جماعت اسلامی کے دوسرے امیر اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جانشین بنے۔اکتوبر 1987تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔اس دوران انہیں متعدد مرتبہ پس دیوار زندان بھیجا گیا۔4اکتوبر 1948کو ان کی پہلی گرفتاری ہوئی۔پہلے قصورجیل ،پھر ملتان جیل میں بندرہے۔یہیں انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سورہ یوسف سے سورہ والناس تک قرآن پاک سبقا سبقا پڑھا۔اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی  سے موطا امام مالک کا سبقا سبقا درس لیا ،وہ ایوبی آمریت کے خلاف متحدہ اپوزیشن سی اوپی اور پی ڈی اے اور ڈی اے سی کے مرکزی رہنما رہے۔
  آج ہمارے سیاسی رہنماء اپنی گرفتاری کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کے ردعمل میں ملک وقوم کابے پناہ نقصان کر دیا جاتا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو 1953میں سزائے موت سنائی گئی ،1963میں جماعت اسلامی کے اجتماع عام پر فائرنگ ہوئی ،جماعت اسلامی کے ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوئے ،1964میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔جماعت اسلامی کی ساری مرکزی مجلس شوریٰ پابند سلاسل کی گئی۔محترم میاں طفیل محمد سے جیل میں بدسلوکی کی گئی۔شاید ہی اتنی بزرگ ،سنجیدہ اور علمی و فکری شخصیت کے ساتھ اتنا توہین آمیز سلوک کیا گیا ہو۔ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہوئے ،محترم قاضی حسین احمد پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔اورحکومتی ظلم و تشددکے ایسے ہی بے شمارمواقع آئے۔لیکن جماعت اسلامی کے کارکنان آپے سے باہر نہیں ہوئے۔احتجاج کیا لیکن پر امن ،جلوس نکالے  کبھی کوئی پھول تک نہ ٹوٹا۔
آج کے سیاستدانوں کے لئے میاں طفیل محمد ایک رول ماڈل ہیں۔انہیں اچھرہ رحمان پورہ سے دفتر 5۔اے ذیلدار پارک پیدل آتے جاتے اکثر دیکھا تھا ،ان کی گفتگو میں پھولوں کی سی خوشبو تھی۔کتاب دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں تین تقاریر شامل ہیں۔سید مودودی ،مولانا امین احسن اصلاحی  اور میاں طفیل محمد ۔لیکن کم ازکم اس تقریر کی حد تک میاں طفیل محمد کی تحریر اپنے دونوں اکابرین ،دونوں اساتذہ سے زیادہ مؤثررہی تھی۔ اسی طرح1973کا دستور بنانے کے عمل میں میاں طفیل محمد کا تاریخی بلکہ تاریخ ساز حصہ تھا۔
جامع منصورہ کا ایک ایک نمازی گواہ ہے کہ منصورہ مسجد میں ہر نماز میں سب سے پہلے آنے اور سب سے بعد جانے والے دو نمازی تھے ، 2009میں آپ ہم سے جدا ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔یقیناایسے درویش صفت اہل ایمان کا استقبال رب کی رحمتیں خود کرتی ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن