ڈاکٹر شہباز احمد چشتی
Dr.shahbazadvocate@gmail.com
قربانی عربی زبان کا لفظ ھے جو اصل میں قربان ھے جس کا مصدر قرب اورمعنیٰ قرب و نزدیکی ھے قربانی قربِ الہی کا انتہائی موثر ذریعہ ھے جانور کی قربانی کے ذریعے نفسانی خواہشات کو قربان کرنے کا جذبہ ملتا ھے قربانی اصل میں انسانی جان کا بدل ھے لھذا مسلمان جانور قربان کرکے اپنے خالق سے رشتہ ء عبودیت کو مضبوط کرتا ہے عہد وفا نبھاتا ھے مہنگائی اور مالی مشکلات کے باوجود جانور کی قربانی دے کر اعلان کرتا ھے کہ دین پر مشکل وقت آنے پر اپنی جان بھی جانِ آفریں کے سپرد کر دے گا۔ قرآن مجید جن پیغمبروں کے طرزِ حیات کو ھمارے لئے بطور رول ماڈل پیش کرتا ھے ان میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حبیب خدا حضرت محمدؐ کی مبارک زندگیاں شامل ہیں دونوں جلیل القدر ذواتِ مقدسہ نے اپنے رب سے محبت، عشق، وفاداری اور اظہارِ بندگی کے ایسے ایسے نمونے پیش کئے ہیں کہ ملائکہ بھی اس شانِ بندگی پر رشک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
قربانی کا بنیادی مقصد مسلمان کے اندر تقوٰی کا جوہر پیدا کرنا ھے بندہء مومن کے قلب و نگاہ کو اخلاص و للہیت کے نور سے روشن کرنا ھے بندے کی خواہشات کو حکم خداوندی کے تابع کرنا ھے قرآن حکیم بتاتا ھے کہ اللہ کریم تک قربانی کے جانور کا خون پہنچتا ھے نہ ہی گوشت جاتا ھے بلکہ اللہ کے پاس بندے کی نیت کا اخلاص، شوقِ بندگی اور جذبہ ء عبودیت پہنچتا ھے یہ اوصاف پیدا کرنے کے لئے ہمیں ریاکاری اور دکھلاوے سے بچنا ہو گا کیونکہ ریاکاری اعمال صالحہ کو اس طرح جلا کر خاکستر کر دیتی ھے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ھے آج قربانی کو معاشرتی سٹیٹس اور نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھا جاتا ھے کچھ لوگ مہنگے سے مہنگا جانور اس لئے خریدتے ہیں تاکہ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر لوگوں سے زیادہ سے زیادہ لائکس اور کمنٹس لے سکیں۔ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا میں تمھارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغر ھے صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہؐ یہ شرکِ اصغر کیا ھے فرمایا ریاکاری اور دکھلاوہ ھے فرمایا قیامت کے دن اللہ رب العزت ارشاد فرمائے گا تم جن لوگوں کے لئے نیک اعمال کرتے تھے انہی سے جا کر اجر و ثواب طلب کرو۔
جو قربانی محض رضا ئے الہی اور سنت نبویؐ کی پیروی میں کی جائے وہ انسانی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ھے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا احساس دلاتی ھے ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب خدا کی محبت میں وطن و گھر، مال و دولت اور جگر کے ٹکڑے کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ربِّ کریم بھی اپنا کرم فرما کر امامت و سیادت کیلئے عرش معلیٰ سے قبولیت کا پروانہ بھیج دیتے ہیں ۔سیرت نبوی سے پتہ چلتا ھے کہ رسالت مآبؐ نے اپنی مدنی زندگی کے دس سالوں میں ہر سال قربانی کی ھے بلکہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی یعنی اپنی حیات مقدسہ کے ہر سال کے بدلے میں تریسٹھ اونٹ اپنے دست نبوت سے ذبح فرمائے اور باقی اونٹ سیدنا علی شیر خدا کو ذبح کرنے کا حکم دیا بلکہ اعلانِ عام فرمایا کہ جو شخص مالی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ھماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ لھذا غلامانِ مصطفیٰ منکرینِ حدیث یا دشمنان اسلام کے جھانسے میں آنے کی بجائے خوش دلی اور شوق و وارفتگی سے قربانی کریں۔ سیدنا علی المرتضیٰ ہمیشہ ایک کی بجائے دو جانوروں کی قربانی کرتے تھے صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے میرے لجپال آقا کریم ؐ نے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا تو ایک قربانی اپنی طرف سے اور دوسری پیارے آقا ؐ کی طرف سے کرتا ہوں اس عمل سے ثابت ہو تا ھے کہ مرحوم والدین اور فوت شدہ عزیز رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنا نہ صرف جائز بلکہ عین ثواب ھے جس طرح نماز سے عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ھے روزے سے بھوکے انسان کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ھے زکوۃ سے مال کی تطہیر ہوتی ھے حج سے محبت الہی کے دریا میں جوش آتا ھے اسی طرح قربانی سے ایمان و اخلاص میں اضافہ اور ایثار و فدائیت کے جذبوں میں ترقی ہوتی ہے ۔ جب کہ سنت ابراہیمیؑ کے ذریعے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ھے جب کہ اصل مقصد حکم الہی کی پیروی ھے قربانی کا پیغام بھی یہی ھے کہ رب کے حکم کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے ھماری دنیاوی اور آخروی کامیابیوں کا دارو مدار بھی احکام الہی کو ماننے اور نبوی طریقے کو اپنانے میں ھے اگرچہ عقل، معاشرہ اور نقاد اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ محسن انسانیت ؐنے ارشاد فرمایا" تم میں سے کوئی شخص اسوقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے" قربانی نام ہی خواہشات اور رسومات کو شریعتِ محمدی کے سانچے میں ڈھالنے کا ھے قربانی جانور کی ہو یا جان کی خلوص و شوق سے کئے بغیر کوئی فرد یا قوم کاروان انسانیت کی قیادت کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکتی۔
کچھ ملحدین اور بعض دیسی لبرلز جس طرح ہراسلامی شعار اور دینی طریقے پر نقد و جرح کرتے دکھائی دیتے ہیں قربانی جیسی مقدس سنت بھی ان کے طعن و تشنیع کے تیروں سے محفوظ نہیں رہی۔ جو پیسا قربانی کے جانوروں کی خریداری پر خرچ کیا جا رہا ھے اس سے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ھے ان اعتراضات کے پیچھے خدمت خلق یا غریب پروری کا جذبہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور مذہب بیزاری کا لاوہ ابل رہا ھے حالانکہ وہ یہ مشورے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں، محل نما کوٹھیاں بنانے والے امیر زادوں اور شادی بیاہ پر پانی کی طرح دولت بہانے والے شاہ خرچوں کو بھی دے سکتے ہیں مگر جن کے خمیر میں شقاوت اور ضمیر میں عداوت چھپی ہو ان سے کس خیر اور عدل کی توقع کیسے کی جا سکتی ھے۔