طاہر بھلر
کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ ایک طرف تو آپ سرکاری ملازمین کی تنحواہوں میں تیس فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ بوڑھے ملازمین جنوں نے اپنی تمام زندگانی اس ملک وقوم کے لئے صرف کی باہر کے ملکوں میں نہ جانے کو ترجیح دے کر اپنے ہی ملک کے اداروں ، اور سڑکوں کی خاک چھاننے میں اپنی عزت سمجھی اور جو کچھ انہیں میسر آیا وہ اسی پر قناعت کرتے رہے اور اپنے بال بچوں کو بھی اسی پر گزارہ کرنے پر مجبور کرتے رہے کہ یہی حب الوطنی کا تقاضہ تھا ، یہی پاکستان کی ضرورت تھی اور آج اسی بزرگ کو جو اپنا تن من دھن اس ملک کو دینے میں عار کی بجائے فخر محسوس کرتا رہا ہے، آج اسی کو اس شدید مہنگائی کے دور میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسروں کے آگے کہیں ہاتھ نہ پھیلانے پڑ جائیں کیا آج کے اقتدار کی کر سیوں پر بیٹھنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ یہ وہ ہی بوڑھے پنشنرز کی محنت کی بدولت آپ اس وقت ان بلند مقاموں پر پہنچے ہیں اور خدا راہ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے ان بزرگوں کو مت بھولیں اور ان کے جائز حقوق ان کو ضرور دیں۔ وہ تو اب اس عمر میں کچھ جسمانی یا ذہنی کام کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس حکومت کے اس مہنگائی کے دور میں دوسرے ملازموں کے مقابلے میں انتہائی کم ، صرف پانچ فیصد اضافہ کو ناکافی ناانصافی پر مبنی فیصلہ سمجھتے ہوئے سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کے لئے احتجاج نہ شروع کر دیں۔ جن ملازمین کی تنخواہ میں تیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے کیا ان کوعمران خان کے ووٹرز سمجھ کر اس اضافے سے مطمن کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی۔ تو بھئی حکومت کے نام نہاد بزرجمہرو، یہی بزرگ پنشنرز ہی تو ہیں جو ملک کے سکون کے لئے ابھی تک کسی جذباتی نعروں میں نہیں آئے اور پاکستان کے ساتھ پیار پاکستان کی سالمئیت کے ساتھ پیار کرنے والی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ ان ہی کو سخت نا انصافی کا شکار کر رہے ہیں اور پہلے آپ سترہ فیصد اضافے کا اعلان ہی نہ کرتے، اور پھر اچانک کسی نام نہاد دانشور کے کہنے پر کہ بوڑھوں کو کیا دینا ، نہ یہ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے ، نہ سڑکوں پر آئیں گے اس لئے ان کو کمزور سمجھ کر انتہائی قلیل اضافہ پر ٹرخا دیا گیا جو اس عمر کے لوگوں کے ساتھ صریح نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج ان پنشنرز کو جن کی پنشن آج کے اس مہنگائی کے دور میں آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے ،کو انکے زیر کفالت بچوں ، بچیوں کے اخراجات پورے کرنے، انکی ذمہ دارئیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے پنشن میں زیادہ اضافے کی ضرورت ہے جو اگر زیادہ نہیں تو کم از کم پہلے کی طرح دوسرے ملازمین کے مساوی اضافہ کیا جاتا تھا اسی شرع یعنی تیس فیضد برابری کی بنیاد پر اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔ ان کو ان کے بوڑھے ہونے کی آخر کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ یہ غلط ریت اس حکومت نے ڈالی ہے ورنہ اس سے پہلے سرکاری اور پنشنرز کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ تقریبا ہمیشہ سے برابر ہی کیا جاتا رہا ہے۔ ہاں ماضی میںکبھی زیادہ سے زیادہ انیس بیس کا فرق شائد رہا ہو۔ بھئی ایک کو پانچ فیصد ایک کو تیس فیصد اتنا فرق اتنی تفاوت اتنا ظلم اتنی کم عقلی۔ بھئی کچھ تو توازن رکھو، کچھ تو فرق کم کرو۔ہم جناب شہباز شریف ، زرداری صاحب اور نواز شریف اور ان کے کو تاہ اندیش مشیروں کو آگاہ بلکہ انتباہ کرتے ہیں کہ نہ ہماری جگ ہنسائی کرائیں نہ اپنے تئیں تمام دنیا میں بدنام ہوں ، ورنہ ہم بھی کہیں نہ چاہتے ہوئے سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کریں کیونکہ پنشنرآخری سانس تک بلکہ وفات کے بعد تک بھی پھل دیتا ہے فکر انگیز بات اس طبقے کی ہے جو اہل ہنر بے روزگار اپنے اپنے بے روزگار یا کم آمدنی والی اولاد کے رحم و کرم پر ہیں۔ مزید براںہمارا ملک عزیز ہڑتالوں اور مظاہروں کی سکت نہیں ر کھتااور نہ ہماری کوئی سیاسی وفاداری کسی جماعت سے ہے کہ ہم کسی کے ورغلانے پر تشدد آمیز راہ احتیار کریں۔ اس لئے ان چند گزارشات کو ہی بڑا سمجھیں اور ہماری گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں۔ کہ ہمیں سے چراغ محفل ابھی تک جگمگا رہا ہے، ہماری دعاوں سے ہی آخر شب میں صبا کی آمد آمد کا غلغلہ ابھی باقی ہے۔ ورنہ ریاض خیرآبادی ہمارے حکمرانوں کے بارے میں ہی شائد کہ رہے ہیں
جام ہے توبہ شکن توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا۔