سیلاب متاثرین ملیریا کا شکار ، گلوبل فنڈ کا رخ بھارت کیطرف کیوں۔

سید فیضان
پاکستانی حکام کے مطابق ملکی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا اور دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد 600 سے تجاوز کر گئی   
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ کے کچھ علاقوں میں ملیریا تیزی سے پھیل رہا ہے، جہاں متاثرین کی بڑی تعداد اب بھی ٹھہرے ہوئے پانی کے قریب پناہ لیے ہوئے ہے۔
سندھ کے شہر سہون شریف میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد ملیریا اور گیسٹرو کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ 2021 میں ملیریا کے مریضوں کی تعدار ملک بھر میں 4 لاکھ پر مشتمل تھی اور اگر سیلاب کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو صرف 60 اضلاع میں یہ تعداد بڑھ کر 1.6 ملین سے بھی تجاوز کر گئی ہے
ڈاکٹر عبدالرؤف نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا سیلاب کے باعث ایسے مریضوں کی تعداد میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھلا (سیلاب کا) پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے گیسٹرو اور ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’یہاں عام طور پر ملیریا کے اتنے مریض نہیں ہوتے لیکن اب ہمارے پاس آنے والے 10 بیمار بچوں میں سے ا?ٹھ یا نو ملیریا کا شکار ہیں۔‘
 حکومت نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کی عارضی سہولیات  دینے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن ملیریا سے بچاو کیلئے مچھر دانیوں کی فوری  ترسیل انتہائی ضروری ہے تاکہ ملیریا سے بچاو کو  ممکن بنایا جا سکے  جبکہ  پچھلے سال یکم جولائی سے اب تک 23 لاکھ سے زیادہ مریض زیر علاج رہے، جن میں سے 33 لوگوں  کی ملیریا کیوجہ سے اموات واقع ہو گئی۔
ڈاکٹرز نے اسی عرصے کے دوران اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے خاندانوں میں ملیریا کے 665 نئے کیسز کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ مزید 15 ہزار 201 مشتبہ کیسز کے ساتھ، ساتھ صوبے بھر میں گذشتہ دنوں  میں 19 ہزار سے زائد مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے ایک چوتھائی یعنی 6 ہزار 876 کیسز مثبت تھے
حکام کا کہنا ہے کہ اگر ضروری امداد ( مچھر دانیاں ) جلد نہ پہنچیں تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
 سیلاب زدہ علاقے  میں مچھروں اور دیگر خطرات جیسے سانپ اور مچھر کے کاٹنے جیسے واقعات سے بچنے کیلئے مچھر دانیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے
  پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ صحت کے اس بحران نے سیلاب زدگان کی تکالیف کو مزید بڑھا دیا ہے اور معیشت کی بحالی میں مدد کے لیے مقامی کوششوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
ستمبر 2022 میں،گلوبل فنڈ نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مالی امداد کی فوری اور شدید ضرورت ہے گلوبل فنڈ نے سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا اور مچھروں سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 6 ملین مچھرمار دوا لگی  مچھر دانیوں کی خریداری کے لیے اضافی 18 ملین ڈالر کی ہنگامی فنڈنگ ??کی فوری منظوری دی ۔اگرچہ گلوبل فنڈ نےمچھر دانیوں کی فراہمی کی کمی کو محسوس کیا لیکن گلوبل فنڈ نے پاکستانی مینو فیکچررز کو نظر انداز  بھی کیا اور  اس نے پہلے سے مصروف ہندوستانی مینوفیکچررز کو مچھر دانیوں کا آرڈر دے دیا،  اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ پاکستان کے پاس بھی WHO سے پہلے سے کوالیفائیڈ منظور شدہ اور آڈٹ شدہ مینوفیکچرر موجود ہیں۔ اور پاکستانی کمپنیاں  پہلے ہی افریقہ کے 30 سے ??زیادہ ممالک اور ملیریا سے متاثرہ دیگر خطوں میں ملیریا کے خطرے سے دوچار لوگوں کو 100 ملین سے زیادہ مچھر مار دوا لگی مچھر دانیاں فراہم کر چکیں ہیں۔ لوکل انڈسٹری کو اگر  مچھر دانیوں کا آڈر دیا جائے تو  ہندوستانی مینوفیکچررز سے بہت پہلیآڈر فراہم کر سکتے ہیں۔

اس سے ایک تو ملک میں روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے لوکل انڈسٹری کو بوسٹ ملے گا آڈر ٹائم پر ڈلیور ہوگا  روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے پاکستانی انڈسٹری کو ترجیح نہ دینا سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ تنزانیہ  اور افریقہ کے دوسرے ممالک میں جب ملیریا  سے اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تو گلوبل فنڈ نے وہاں کی مقامی انڈسٹری کو ترجیح دی  جو کہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھی پھر پاکستان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں خاص طور پر، یہ فیصلہ عالمی فنڈ کے "قومی سطح پر سپلائی کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے" کے عزم کے خلاف بھی ہے حکومت وقت اور خاص طور پر محکمہ  صحت کو چاہیے کہ اس بات کا نوٹس لے اور گلوبل فنڈ  کو باور کروایا جائے کہ وہ پاکستانی  مینوفیکچررز کو اپنی تجیحات میں شامل کر کے آڈر پاکستان شفٹ کروائے۔

ای پیپر دی نیشن