فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے: چیف جسٹس

Jun 23, 2023 | 15:31

ویب ڈیسک

اسلام آباد :  چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پرسماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔یہ درخواستیں جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ میں نے تحریری طور پر معروضات جمع کرادیں ہیں،میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے. میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ9مئی کو کیا ہوا کیا نہیں.آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقوں کے خلاف دلائل دوں گا۔وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میرا موقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے.آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔

وکیل فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے5فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں،1998میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا،ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ کمانڈنگ افسر نے ایڈمنسٹریٹیو جج کو سویلینز کی فوجی اتھارٹیز کو حوالگی کی درخواست کی،کمانڈنگ افسر کی درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہئیں تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا،یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابل سماعت ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا درخواستیں قابل سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونے والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو. اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگتا ہے؟وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جاسکتی۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ کب مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں.یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ کیسے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے،بار بار آپ سے سوال کر رہے ہیں اور آپ جواب نہیں دے رہے۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ بتا دیں کہ کیسے کسی کیخلاف آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے، اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کب لگتا ہے یہ بتا دیں، اس موقع جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ بھی کر سکتی ہیں کہ کسی سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ اگر ایک شخص کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے؟جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے. جس کے تحت یہ طے ہوتا ہے کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے،فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے. فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی،اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہناتھا کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں. پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے. آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں؟ اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ سے 2 سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ طریقہ کار بتائیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے؟ کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا. آپ ان مقدمات میں طریقہ کار کا بتائیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں. جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے. اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے اور رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے. یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں اور ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے. آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں۔فیصل صدیقی نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا. 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے. اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی نظریں پیش کروں گا۔سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل شروع ہوگئے۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو. ہمارا نقطہ فورم کا ہے کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں۔وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا کل مقصد یہ ہے کہ آرمڈ فورسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 10، 9 اور 25 میں دیئے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ اسی 7 رکنی بنچ کو آرمی ایکٹ کی سیکشن 2 ڈی ون کو کلعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے 21 ویں ترمیم کے بعد اس کے ہاتھ بندھیں ہیں تو فل کورٹ ہی بنا لیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میں تو اسی میں کمفرٹیبل ہوں گا اگر اتنا ہی بنچ بیٹھے جتنے رکنی بنچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کیلئے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا موقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔


 

مزیدخبریں