مولانا مہر محمد اچھروی

Jun 23, 2024

ڈاکٹر ضیاء الحق قمر

ڈاکٹر ضیاءالحق قمر
آپ 1896ءمیں چوکھنڈی ضلع اٹک میں محمد عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابھی آٹھ برس کے تھے کہ والد محترم کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ تھوہا محرم خان کے مکتب سکول سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ تیسری جماعت کے بعد حفظ قرآن کریم شروع کیا، جس کی تکمیل خوشاب میں حافظ عطاءالرسول سے ہوئی۔ حافظ صاحب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ ان کی جگہ قرآن کریم کی تدریس کی، پھر اپنے علاقہ کے سماجی پس منظر کے مطابق فوج میں خدمات سر انجام دیں۔ کچھ عرصہ ملازمت کے بعد دوبارہ دینی تعلیم کا آغاز کیا اور فارسی کتب بندیال سرگودہا میں مولانا سلطان محمود سے پڑھیں، اس وقت فارسی کی تدریس میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔کچھ کتابیں قاضیاں،ضلع مظفر گڑھ میں مولانا سید غلام حسین سے پڑھیں۔
اس کے بعد مولانا حافظ مہر محمد کی اگلی منزل ملتان کی ایک مضافاتی بستی محمد پور گھوٹہ ٹھہری، جہاں سیبویہ زمان یگانہ دوراں مولانا غلام محمد گھوٹوی مسند تدریس پر رونق افروز تھے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی 1885ءمیں گمرال کلاں، گجرات میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک معزز زمیندار گھرانے سے تھا۔ غریب پروری اور خدا ترسی ان کا خاصہ تھا۔ آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ، مقامی سکول سے اول پوزیشن میں پرائمری پاس کرنے کے بعد دارالعلوم چکوڑی شریف میں صاحبزادہ مولوی محمد چراغ عباسی سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ کے زمانہ طالب علمی میں وہاں ایک بار پیر مہر علی شاہ تشریف لائے تو عباسی صاحب نے اپنے قابل فخر شاگرد غلام محمد کو بغرض جانچ تعلیم آپ کے حضور پیش کیا۔ قبلہ گولڑوی صاحب نے ان سے چند سوالات کیے تو انھوں نے بانداز احسن جواب گوش گزار کیے تو انھوں نے فرمایا کہ ’ یہ بچہ بڑی شان والا معلوم ہوتا ہے اس کا خاص خیال رکھنا‘ اور ساتھ ہی ان کو بیعت فرما کر اپنے سلسلہ میں داخل فرمایا۔
 اس وقت گھوٹوی صاحب کی عمر تقریباً 14 برس تھی۔ چکوڑی شریف کے بعد آپ علامہ حافظ محمد جمال الدین اعوان کی خدمت میں دارالعلوم گھوٹہ تشریف لائے۔ اس کے بعد قاضی والا(مظفر گڑھ) چکی شیخ علاقہ نمل، میانوالی، دارالعلوم نعمانیہ،لاہور اور جامعہ فیض عام کانپور سے ہوتے ہوئے مولوی فضل حق رامپوری کی خدمت میں مدرسہ عالیہ رام پور حاضر ہوئے، یہاں آپ اپنے اوج کمال کو پہنچے۔ سند فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ رام پور میں ہی تدریس شروع کی۔ آپ کے تدریسی سفر کا آغاز معقولات سے ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ عربی ادب، علم العقائد اور اصول تشریع کی تدریس بھی کرتے رہے اور ان میں نام کمایا۔ پھر آپ نے تدریس حدیث شریف کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور آخری دم تک خدمت و تدریس حدیث شریف میں مصروف رہے۔
1909ءمیں مولانا غلام محمد گھوٹوی اپنی پہلی مادر علمی دارالعلوم گھوٹہ میں مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے۔ وہیں ہمارے مخدوم و ممدوح مولانا مہر محمد اچھروی نے ان سے شرف تلمذ پایا۔ برصغیر پاک و ہند میں آپ سے فیض یافتگان کی ایک بڑی تعداد نے علمی دنیا میں نام پیدا کیا۔ مولانا گھوٹوی صاحب فروعی اختلافی مسائل میں شدت پسند نہیں تھے۔ مولانا مہر محمد نے اپنے محترم استاد سے بہت اثر قبول کیا تھا اس لیے آپ بھی فروعی اختلافات کو ذوق کی سلامتی، مطالعے کی وسعت اور تنوع کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔
مولانا مہر محمد اچھروی مولانا گھوٹوی کے تلمیذ خاص تھے اس لیے آپ ان کی خصوصی توجہ و شفقت سے مستفید ہوئے۔ جب گھوٹوی صاحب حج بیت اللہ کے لیے سرزمین حجاز تشریف لے گئے تو اس دوران اپ موضع انھی منڈی بہا الدین میں مولانا حافظ غلام رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کسب فیض کیا۔ مولانا حافظ غلام رسول بن محرم رانجھا حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے۔آپ 1852ءمیں پیدا ہوئے، اپنے والد ماجد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے دور کے نامور اساطین علم سے اکتساب فیض کیا۔ پھر اپنے آبائی گاو¿ں انھی میں مدرسہ حنفیہ کے نام سے مدرسہ قائم کیا جہاں آپ بلا معاوضہ درس و تدریس فرماتے جبکہ معاش کے لیے کھیتی باڑی کا سلسلہ تھا۔ حافظ صاحب کا نام نامی ہی طلبہ کے داخلے کی ضمانت تھا۔ آپ سے فیض یافتہ ہر ادارے میں بلا امتحان داخلے کے حقدار ٹھہرتے۔ مولانا مہر محمد اچھروی نے آپ سے بھرپور استفادہ کیا۔ مولانا گھوٹوی کی سفر حج سے واپسی پر مولانا مہر محمد نے بھی دارالعلوم گھوٹہ مراجعت کی اور ان سے سند فراغت حاصل کی۔ پھر اپنے محترم استاد کے حکم پر 1928ءمیں جامعہ فتحیہ تشریف لائے۔ یہاں آپ ربع صدی سے زائد طالبان علم کی رہنمائی فرماتے رہے۔
آپ کے دور میں مولانا غلام محمد گھوٹوی اکثر جامعہ فتحیہ تشریف لایا کرتے تھے آپ کی تشریف آوری کبھی طلبہ کا امتحان لینے کے لیے ہوتی اور کبھی اپنے تلمیذ رشید سے محبت و شفقت اس کا باعث بنتی۔ مولانا مہر محمد اچھروی کو درس و تدریس بالخصوص معقولات میں ید طولی حاصل تھا۔ آپ معقولات و منقولات کی منتہی کتب کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ سے فیض یافتگان نے آسمان علم و فضل پر ستاروں کی مانند ذو افشانیاں کیں۔ ان نامور تلامذہ میں سے چند نام یہ ہیں:مولانا میاں محمد اسلم جان، مولانا عنایت اللہ چشتی، علامہ محمد شریف کاشمیری، مولانا صوفی فضل احمد، قاضی عبدالحئی الہاشمی المعروف چن پیر، مولانا عبداللطیف جہلمی، مولانا عطاءمحمد بندیالوی، مولانا غلام رسول رضوی، مولانا محمد امین،سید مقبول حسین شاہ مراڑوی، قاری سید حسن شاہ، مولانا عبیداللہ ایوبی قندھاری، علامہ پیر محمد اشرف قادری کھڑیپڑ شریف، مولانا محمد مہر الدین، مولانا غلام محمد عباسی آسمان علم کے مہر تاباں مولانا مہر محمد اچھروی جامعہ فتحیہ اچھرہ میں ربع صدی سے زائد دین متین کی تدریس و ترویج کے بعد 29 نومبر 1954ءمیں خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کی تدفین قبرستان اچھرہ اڈا میں احاطہ ذیلداراں میں ہوئی۔

مزیدخبریں