اتوار‘ 16 ذو الحج 1445ھ ‘ 23 جون 2024

کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے سنٹرل کنٹریکٹ میں تبدیلی کا امکان 
ہو کہ رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیوں۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تھی ہی کچھ ایسی پہلے راﺅنڈ میں ہی اسے واپسی کی ٹکٹیں کٹانا پڑیں۔ اس کے بعد یہ اتھل پتھل تو ہونا ہی تھا۔ آخر کرکٹ کے کرتا دھرتاﺅں نے اپنی اپنی گردن بھی تو بچانی ہے۔ اس بدترین کارکردگی کے بعد ایکشن لینا ضروری ہو گیا تھا۔ بس یاد رہے کہ ذاتی پسند ناپسند کی بجائے حقیقت میں ناقص کارکردگی دکھانے والوں کی رسی کھینچی جائے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ کھلاڑیوں کے سنٹرل کنٹریکٹ میں بھی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ دنیا بھر کے ٹور کرنے والے کھلاڑی اگر وہ کام ہی ڈھنگ سے نہ کر پائیں جس کے لیے ان کی اتنی ٹہل سیوا کی جاتی ہے تو پھر کھیل کو کیا فائدہ۔ یہ سفید ہاتھی پالنے کا۔ ان کھلاڑیوں کو عزت، دولت ، شہرت ملتی ہے اسی لیے کہ یہ ملک و قوم کا نام روشن کریں اچھی کھیلیں نہ کہ گروپ بندی کر کے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے۔ اس پسند نا پسند ، یاری دوستی اور گروپ بندی کی وجہ سے آج ہماری ٹیم اس حال میں پہنچی ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے والی امریکہ کی نومولود ٹیم نے بھی ہمیں ہرا دیا۔ کیا یہ ہوتی ہے دنیا کی نمبر ون ٹیموں میں شامل ٹیم کی کارکردگی جو اچھا نہیں کھیلتا اسے اب زیادہ دیر سینے سے لگانے کی ضرورت نہیں۔ نئے ٹیلنٹ کو بھی آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ 
وزیراعظم اور بلاول میں بالآخر دوریاں ختم ہونے لگیں
اب قومی اسمبلی اور سینٹ میں بجٹ کی منظوری کا مرحلہ درپیش ہے تو مسلم لیگ نون کی اتحادی جماعت جو حکومت میں فرقہ ملامیتہ کی طرح کی بقول پیپلز پارٹی علامتی طور پر شامل ہے‘ نے اچانک پھر غیر مرئی انداز میں اپنا دباﺅ بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ ان سے حکومت کسی بھی فیصلے میں مشاورت نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ اور بھی ناراضگی کے اظہار والے بیانات سے معلوم ہوتا تھا کہ دونوں جماعتوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے فوراً پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول سے رابطے شروع کر دئیے ورنہ حکومت میں شامل عناصر کے تو ہاتھ پاﺅں پھول رہے تھے کہ بجٹ کیسے منظور ہو گا۔ پیپلز پارٹی والے کوئی مسئلہ نہ پیدا کر دیں۔ اب اطلاعات کے مطابق دونوں شریک اقتدار جماعتوں میں صلح صفائی ہو گئی ہے۔ تیسری اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی بجٹ منظور کرنے کی گارنٹی دے رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے بجٹ خواہ جمہوری اسمبل نے بنایا ہو یا کسی آلہ نے یا وہ آئی ایم ایف کا تخلیق کردہ ہو۔ اس نے بالآخر منظور ہونا ہی ہوتا ہے۔ کسی کے چاہنے یا نا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہی ہوتا ہے جو منظور اسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے۔ سو اب یہ تلخ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ وہ محض کئی پتلیاں ہیں۔ ورنہ شاید ہی کوئی عوام دشمن بجٹ منظور ہوتا۔ اب خوشی کی بات ہے کہ شہباز شریف اور بلاول میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس پر ہم بھی یہی ”یہ اتفاق مبارک ہو اشرافیہ کے لیے “ ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ بجٹ میں ساری رعایتیں مراعاتیں اشرافیہ کے حصے میں اور ٹیکسوں کا بوجھ عوام کے حصہ میں آیا ہے۔ 
ہائی کورٹ افغان موسیقاروں کو ہراساں کرنے سے روک دیا 
عجب قسمت پائی ہے ان افغان موسیقاروں ، گلوکاروں اور فنکاروں نے اگر وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں تو انہیں جان و مال کا خطرہ رہتا ہے وہاں کے حکمران ساز و آواز کی دنیا سے بہت دور ہیں اور وہ ایسی ہر آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو ان کے نظریات کے خلاف ہو۔ چنانچہ انہوں نے افغانستان میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ وہاں اب موسیقی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی رہ نہیں سکتا۔ اب اگر وہ فن کا مظاہرہ کریں تو بھی شامت آتی ہے۔ پکڑے جاتے ہیں سزا ملتی ہے‘ نہ کریں تو بھوکا مرتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے وہ قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پاکستان آ کر جان بچاتے ہیں اور روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ شکر ہے ابھی تک پاکستان میں فن موسیقی کے دلدادہ موجود ہیں جو فنکاروں، گلوکاروں، موسیقی کاروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر قانونی طریقے سے پاکستان آئے ہیں مگر غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کی آڑ میں پولیس ان کو بھی تنگ کر رہی ہے اور ان سے زبردستی یا ڈرا دھمکا کر پیسے بٹورتی ہے۔ جس پر معاملہ عدالت تک آیا تو پشاور ہائی کورٹ نے ان بے چاروں کی دادرسی کرتے ہوئے انہیں ہراساں نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید ہے اب ان کو ناجائز تنگ نہیں کیا جائے گا۔ جہاں ہم چاہت فتح علی خان کو برداشت کر رہے ہیں وہ ان بے چاروں کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ باقی رہی بات موسیقی کی تو جو ساز اور آواز جاندار ہوتی ہے وہ خودبخود اپنے مداحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور جگہ بناتی ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی کوئی سرحد نہیں ہوتی ساز و آواز تو انسان کی روح کو سرشار کرتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ماحول سے بیگانے کر دیتے ہیں۔ فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور وحشتوں میں کمی آتی ہے۔ مگر یہ بات افغان حکومت اور ہماری پولیس کو کون سمجھائے۔ 
12 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ قبول نہیں کرینگے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے 
لگتا ہے بالآخر تنگ آ کر علی امین گنڈا پور نے بھی ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور اب وہ باقاعدہ گزارش کر رہے ہیں کہ 12 گھنٹے سے زیادہ وہ اپنے صوبے میں لوڈشیڈنگ برداشت نہیں کریں گے۔ اب یہ عوام کا کام ہے کہ وہ اپنے وزیر اعلیٰ سے پوچھیں کہ وہ اچانک چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے 12 گھنٹے تک کیسے آئے۔ اس کے ساتھ ان کے ایم پی اے جہاں جی چاہتا ہے ان کی طرح گرڈ سٹیشنوں میں داخل ہو کر سوئچ آن یا آف کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ کا حکم ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ اب اس نیرنگی سیاست پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ انہی باتوں کو دیکھ کر گورنر خیبر پی کے نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ پیسکو ٹیسکو اور ہزار صوبائی حکومت کو دے دیں جو خود ہی بل بھی لیں اور لوڈشیڈنگ بھی کریں۔ اب معلوم نہیں وزیر اعلیٰ یہ تجویز قبول کریں گے یا نہیں کیونکہ یہ تو براہ راست طوطے کی بلا بندر کے سر والی بات ہو گی۔ شور مچانا اور ہوتا ہے، عملی طور پر کام کرنا اور۔ یہ ذمہ داری اٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کبھی یہ تجویز قبول نہیں کریں گے۔ ورنہ عوامی جلسوں میں تو وہ کہتے ہیں بجلی کی ترسیل لوڈشیڈنگ اور بل وصولی کا نظام صوبے کو دیا جائے۔ بہرحال جو بھی ہوا ایک بات واضح ہو گئی ہے۔ خیبر پی کے میں گھبر سنگھ بننے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی احتجاج، ہنگامے حتیٰ کہ کئی بار بلکہ بار بار ڈیڈ لائن دینے کے باوجود یہ بھوت ابھی تک بے لگام ہے۔ اسے کوئی لگام ڈال نہیں سکا۔ ہاں حکومت ہو یا اپوزیشن اس پر خوب سیاست کرتے رہتے ہیں اور عوام گرمی میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مرتے رہتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...