خشیتِ الٰہی سے بدن پر لرزا طاری رہتا ، جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو بہت زیادہ روتے ۔ آپ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے یہ علم نہ ہو کہ مجھے جنت ملے گی یا دوزخ تو میں اس کا فیصلہ ہونے کے مقابلہ میں خاک ہو جانا پسند کروں ۔ ( تاریخ اسلام )
جب آپ ؓ مسند خلافت پر فائز ہوئے تو فرمایا : لوگو! چند روز جاہ و جلال پر مائل ہو کر شیطان کے چنگل میں نہ پھنسو اور اپنی زندگی اللہ تعالی کی خوشنودی کو حاصل کرنے میں بسر کرو ۔( تاریخ اسلام )
حضرت عثمان غنیؓ ہر کام میں حضور نبی کریمﷺ کی اتباع کو ملحوط خاطر رکھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے پانی منگواکر وضو فرمایا اور مسکرائے۔ اپنے احباب سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا ہو ں پھر خود ہی ارشادا فرمایا اس جگہ حضورﷺنے یوں ہی پانی منگوا کر وضو فرمایا اور بعد میں مسکرائے اور بعد میں صحابہ کرام سے عرض کی جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں ؟ صحابہؓ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جب آدمی وضو کرتا ہے ہاتھ دھوتا ہے توہاتھوں سے اور جب منہ دھوتا ہے تو منہ سے مسح کرنے سے سر اور پاﺅں دھونے سے پاﺅں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ (مسند احمد)
آپؓشرم و حیا کے پیکر تھے۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ اسی حالت میں پتا چلا کہ عثمان غنیؓ تشریف لا رہے ہیں تو آپنے پنڈلی مبارک پر کپڑا ٹھیک کیا اور سیدھا بیٹھ گئے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی : یا رسول اللہﷺ اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا، میرے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ ( بخاری شریف )
آپؓ زہد و تقوی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ دن کو اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور رات عبادت و ریاضت میں گزار دیا کرتے تھے ۔ آپؓ نرم مزاج اور صبر و تحمل کے پیکر تھے ۔
حضرت عثمانؓ جامع القرا ٓن بھی ہیں اور شہید قرآن بھی۔ جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپؓ قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے ۔ آپؓ کے خون کے قطرے سورة البقرہ کی آیت مبارکہ پر گرے ۔ گویا کہ آپؓ کی شہادت کی گواہی قرآن مجید بھی دے گا ۔ آپ ؓ کا یوم شہادت 18ذوالحج ہے۔ آپ ؓ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اہل اسلام نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ آپؓ کے دور ہی میں کسریٰ کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور آرمینہ فتح ہوا ور اندلس پر حملوں کا آ غاز ہوا ۔