وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ ایسا نہ ہو لوگوں کا ردعمل قابو سے باہر ہو جائے، صوبے میں 12 گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے متعلقہ وزارت کی طرف سے جو پالیسی بنائی گئی ہے اس کے مطابق بجلی کی پیداوار کے مطابق یکساں طور پر پورے ملک میں بجلی فراہم اور لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ دوسرا ان علاقوں میں زیادہ لوڈشیڈنگ کو پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے یہاں بجلی چوری کے واقعات ہوتے ہیں اور ریکوری بھی بجلی کے استعمال کے مطابق نہیں ہوتی۔ آج کل ایک دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی زندگی کو عذاب بنا دیتی ہے۔ اگر 12 گھنٹے بجلی بند رہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہوں گے اور پھر کاروبار بھی تباہی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور پر عوامی دباو¿ ضرور ہوگا لیکن کیا ان کو ایسے لوگوں کا دباو¿ قبول کرنا چاہیے جو بجلی تو استعمال کرتے ہیں لیکن بل ادا نہیں کرتے۔ جن علاقوں میں ریکوری بہت کم ہوتی ہے ان علاقوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں مگر ان کو بھی ناکردہ جرم کی پاداش میں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔خیبر پختونخوا میں بجلی کی جبری بحالی کا کلچر بھی فروغ پا رہا ہے۔ چند روز قبل ایک ایم پی اے مظاہرین کے ساتھ گریڈ سٹیشن میں جا گھسے تھے اور زبردستی نو فیڈرز کی بجلی چالو کردی تھی۔ اس کے بعد یہ عمل کئی علاقوں میں دہرایا گیا۔ پھر وزیراعلیٰ نے خود بھی ایک بجلی گھر میں بنفس نفیس داخل ہو کر فیڈر چلوا دیے۔ ایسے اقدام کی ہرگز حمایت نہیں کی جا سکتی۔ آج بجلی گھروں میں گھس کر من مانی کرنے والے لوگ کل وزیراعلیٰ ہاو¿س میں بھی اسی طرح داخل ہو سکتے ہیں۔ ریکوری سسٹم کو بہتر کیا جائے تو کسی صوبے اور علاقے میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔