تمام تر اختلافات اور غلط اور صحیح کی بحث کے باوجود ایک زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک میں موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ میں ملک کی وہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔ مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی ، جے یو آئی ، باپ،پاکستان استحکام پارٹی سمیت ساری پارٹیاں اپنے اپنے انداز کی سیاست بھی کر رہی ہیں اور باہمی مذاکرات یا ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے اپنے اپنے ترپ کے پتے بھی استعمال کررہی ہیں۔دھاندلی اور جیت ہار کے کیس اب ٹریبونل میں ہیں اور جو جوجیتے گا وہ بھی اسی پارلیمانی ڈھانچے میں آن ملے گا۔ منتخب ایوانوں عدالتوں اور سیاسی میدانوں میں باہمی کشمکش اقتدار کی سیاست کا حصہ رہی ہے اور لوگوں کے کانوں اور آنکھوں میں سچائی جمع ہورہی ہے ۔ عوام اس وقت یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو ٹیم میدان میں ان کی خدمت کے لئے اتری ہوئی ہے اس کی کارکردگی کیسی جا رہی ہے۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب بہت سے محکمے وفاق سے صوبوں کے پاس آ گئے اور صوبائی حکومتوں کو بہت سے نئے اختیارات بھی مل گئے تو تب سے عوام کی براہ راست خدمت کے حوالے سے وفاق سے زیادہ اہمیت صوبائی حکومتوں کو حاصل ہوچکی ہے ۔ صوبوں کی حکومتوں میں عوامی خدمت کے حوالے سے مسابقت بھی ایک صحت مند گیم کی طرح سامنے آتی رہتی ہے۔اتفاق سے اس وقت تین صوبوں میں تینوںبڑی پارٹیاں بر سراقتدار ہیں ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن ،خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔بلوچستان میں ایسی مخلوط حکومت ہے جس میں مقامی سیاستدان سرداروں کا اثر زیادہ ہے۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی باقی تینوں صوبوں کے برابرہے اور عوامی مسائل بھی اسی تناسب سے ہیں ۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے جو اس وقت پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شریف کو درپیش ہے۔عوام کی خدمت کی منصوبہ بندی اور پھر ان منصوبوں پر عملدرامد کے حوالے سے اس وقت تینوں بڑی جماعتوںکے مابین ایک طرح سے ایسی آنکھ مچولی جاری ہے جس کا مشاہدہ تینوں صوبوں کے عوام کر رہے ہیں ۔ تینوں صوبوں کے صوبائی وزیر اطلاعات اپنے اپنے صوبے میں عوامی خدمات سے عوام کو آگاہ رکھنے اور ایک دوسرے کی طرف سے سیاسی حملو ں کا جواب دینے کے لئے میدان میں ہیں۔ گویا موجودہ جمہوریت میں ان میں سے ہر ایک دعوی کر سکتا ہے کہ۔
وہ برگ سبز ہوں میں جو اداس رت میں بھی
چمن کے چہرے پہ رونق بحال رکھتا ہے
یہ باہمی آنکھ مچولی گزشتہ 100 سے کچھ اوپر دنوں سے یعنی تب سے جاری ہے جب سے نئی صوبائی حکومتوں نے کام شروع کیا ہے۔ پہلے رمضان المبارک میں غریب لوگوں کو سستی اشیا کی فراہمی کا امتحان گزرا ۔اب سخت گرمی میں عیدالاضحی آئی اور شہروں میں صفائی اور الائشوں کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ پٹرول کی کمی کے بعد سستی اشیاءاور کم کرایوںکی صورت میں ثمرات کی شہریوں تک رسائی کا چیلنج تھا ۔ پنجاب اس ضمن میں دوسرے صوبوں سے زیادہ متحرک نظر آیا ۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق عید الاضحی کے موقع پر صوبہ بھر میں صفائی ستھرائی کے انتظامات احسن اندا ز میں کیے گئے ۔ صوبہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عید کے ایام میں صفائی ستھرائی، جانوروں کی آلائشوں کو بروقت اٹھانے اور شاہراو¿ں و گلیوں کو فنائل اور عرق گلاب سے دھونے کے حوالے سے ڈائمنڈ اسٹینڈرڈ سیٹ کردیا ۔ باقی صوبوں میں سے کسی نے اس دعوے کو چیلنج نہیں کیا تو ظاہر ہے لوگوں تک یہی پیغام گیا کہ پنجاب سب سے آگے ہے ۔ اسی پس منظر میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے تین روزہ خصوصی صفائی مہم میں شامل عملے کے لیے ایک ماہ کی تنخواہ بطور انعام دینے کا اعلان کردیا نہ صرف یہی نہیں بلکہ عید صفائی مہم کی تمام ٹیم کو ”شاباش ٹیم پنجاب، شاباش“ کا پیغام بھی دے دیا اورکہا کہ آپ نے عوام کی مثالی خدمت کرکے پنجاب کی نئی تاریخ لکھ دی۔ شدید گرمی میں جس طرح آپ نے عوام کی خدمت کی،اس پر تمام میونسپل اداروں، ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں، لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سمیت تمام افسران اور عملے کے ارکان خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ زاہد بخاری اور وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے ریکارڈکے ساتھ بتایا کہ عید کے تینوں ایام میں انتھک محنت اور عزم کے ساتھ کام کر کے عوام کو متعفن ماحول سے محفوظ رکھا گیا۔
عید کے دنوں میں پنجاب بھر سے 18 لاکھ ٹن آلائشیں اٹھائی گئیں اور 55 ہزار سے زائد سینٹری ورکرز مسلسل متحرک رہے ۔ عظمی زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ عید کے دنوں میں صرف صفائی پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ٹرانسپورٹ کرایوں میں اوور چارجنگ کی روک تھام بھی یقینی بنائی گئی۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے حکام اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ نے صوبہ بھر میں مسافروں کو اضافی وصول کئے گئے 14لاکھ 67 ہزار روپے واپس کرائے ۔ اوورچارجنگ پر 27 لاکھ 85 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ 1448 گاڑیوں کے چالان ہوئے۔تنقید پر ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اپنے صوبے میں ترقی تو نہیں کراسکے لیکن پنجاب کی ترقی دیکھ کر انہیں تکلیف ہو رہی ہے۔پنجاب میں صوبائی حکومت کی سرگرمیاں توسامنے آ رہی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے انتظامی یونٹوں میں سے بعض میں کسی انعام کی آس لگائے بغیر محض اپنے فرض منصبی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے کام کئے جا رہے ہیں جن پر غور کیا جائے تواحساس ہوتا ہے کہ
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی ۔۔۔
مثلا ہسپتالوں میں تکنیکی معاونت کے شعبوں ایکسرے ای سی جی بلڈ ٹیسٹ اور سی ٹی سکین وغیرہ کےلئے استعمال ہونے والے آلات کے بارے میں یہی مشہور ہوتا ہے کہ خراب پڑے ہیں۔ عام طور پر حکومت سے فنڈز کی دستیابی کا انتظار کیا جاتا ہے لیکن لاہورمیں ایک نئی بات ہوئی اور بہتر حکمت عملی سے جنرل ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی ری ویمپنگ کے دوران متاثرہونے والی سی ٹی سکین اور ایکسرے مشینوں کی بحالی مکمل ہو گئی۔ ان مشینوں کی مرمت کیلئے کمپنی نے 70لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر نے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جنہوں نے مذکورہ مشینیں فراہم کرنیوالی کمپنی کے اعلیٰ حکام سے کامیاب مذاکرات کر کے 70لاکھ روپے نہ لینے پر آمادہ کر لیااور اب یہ مشینیں بغیر کسی خرچ کے گزشتہ روز فنکشنل ہو گئی ہیں۔اس موقع پر-پروفیسر الفرید ظفر نے بجا کہا کہ دین اسلام میں زندگی بچانا سب سے عظیم مرتبہ ہے- عید الاضحی اور ایسے ہی قومی تعطیلات کے موقع پر ہمیشہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے اپنے پیاروں کی بجائے دکھی انسانیت کی خدمت کر کے عید منائی ہے۔ ایسے قومی ہیروزکا احترام کیا جائے تو طبی شعبے میں وہ ٹینشن پیدا نہ ہو جو ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال سے پنجاب کے دوسرے ہسپتالوں تک پہنچی ہے۔عید الاضحی پر جنرل ہسپتال سے ایسی خبروں کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاںایک اچھی انتظامی ٹیم موجود ہے۔ سابق ایم ایس ڈاکٹر پروفیسرندرت سہیل نے بھی ہسپتال کے تمام سٹاف کے ساتھ رات دن ایک کر کے مریضوں کی خدمت کی اور موجودہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ایل جی ایچ ڈاکٹر فریاد حسین بھی ہمہ وقت ہسپتال کے تمام شعبوں پرنظر رکھتے ہیں۔ عید کے موقع پر انہوں نے تمام شعبوں کے سربراہان سے کہا کہ وہ عید کے ایام میں اپنے ماتحت عملے کی کارکردگی کو مانیٹر کریں۔- پرنسپل الفرید ظفر اور ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین جیسا جذبہ تب ہی زندہ رہتا ہے کہ ان سے اوپر کی اتھارٹی ان کو احترام د ے ۔ جب صوبوں میں کارکردگی کی مسابقت کی روائت کو مستحکم کرنے کی بات ہوتی ہے تو اس لیڈر کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا جو اپنے سیاسی نمائیدوں کی خواہشات شکایات اور میدان میں عملی طور پر کام کرنے والوں کے مسائل اور زمینی حقائق کو سامنے رکھے گا ۔صوبہ پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شریف دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ چیلنجز کے بیچ میں ہیں اس لئے انہیں سب سے زیادہ متوازن رویے کا اول اپنانا ہو گا ۔ ویسے بھی صوبوں کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ او ر یہ بھی ہے کہ مقابلہ نہ ہو تو سیاست کا کیا مزہ؟ پھر بھی ۔۔۔
لبادہ صبر و ہمت کا اسے درکار ہوتا ہے
کہانی میں جو کوئی مرکزی کردار ہوتا ہے
صوبائی مقابلہ کارکردگی ۔ جنرل ہسپتال اچھی مثال
Jun 23, 2024