پاکستان عزم عالی شان کی تخلیق کے بعد بے شمار سیاسی جماعتیں تخلیق پذیر ہوئی جن کی عصر حاضر میں تعداد قریباً 140ہے۔ اقلیتوں کی جماعتیں اس کے علاوہ ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جن میں برطانیہ‘ امریکہ‘ سوئٹزر لینڈ کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں دو یا تین سیاسی جماعتیں ہیں اور وہ ترقی یافتہ ممالک میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کا چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے اور پھر یہ کہ اپنی اپنی جماعتوں سے مخلص بھی نہیں۔
تحفہ خداوندی پاکستان میں شروع سے ہی اگر سیاسی احوال و کیفیات کا مطالعہ کیا جائے اور جمہوریت کے تقاضوں کو سمجھا جائے تو یہ نظرآتا ہے کہ 62 سالوں میں پاکستان میں جمہوریت کوئی فائدہ مند سیاسی نظام ثابت نہیں ہوئی جس میں قومی انتشار‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ افراتفری اور بے یقینی کی کیفیات ہمیشہ سے موجود رہی ہیں‘ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے کون سی جمہوریت کا اظہار ہوتا ہے اگر دور نہ جائیں تو 18 فروری 2008ء کے انتخابات کا ہی جائزہ لے لیں کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ پورا سال قومی مفاہمت کے لئے سرگرداں رہے بالآخر قوم کو سڑکوں پہ آنا پڑا۔ عدلیہ کی آزادی کا مسئلہ کون سا مسئلہ فیثا غورث تھا جو نہ حل ہو سکتا تھا لیکن قوم کو سربراہان سیاست و قیادت نے ذہنی اور نفسیاتی عذاب میں متبلا کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہان کا کمال حوصلہ‘ تدبر‘ استقلال اور استقامت تھی کہ وہ جگر کاری سے جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے حوالے سے صبر آزما اور کٹھن دور سے گزرتے رہے کیا۔ حکومتی فیصلے قومی مفاہمت سے طے نہیں ہو سکتے تھے؟ قوم کے افراد کتنے پریشان اور مضطرب ہوئے اور ایک دل شکن اور دردناک لمحوں سے دوچار رہے قصہ یہ ہے کہ اگر عدلیہ کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے آزاد کر دیا گیا جو بہت ہی ضروری تھا تو اب پنجاب حکومت کی بحالی کے راستے میں روڑے اٹکانے کا کیا جواز ہے؟
پنجاب حکومت کے 25 فروری 2009ء کے اقدامات کو ختم کر کے گورنر راج کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیے تھا تاکہ صوبہ پنجاب جو پاکستان کا دل ہے قومی استحکام و سالمیت اور تعمیر و ترقی کے لئے اپنا حصہ ادا کر سکے اور اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے تاکہ پوری قوم کو پھر دوبارہ سڑکوں پر آ کر پنجاب حکومت کی بحالی کا فیصلہ نہ کرنا پڑے۔ فیصلے حکومتی ایوانوں میں ہونے چاہیے نہ کہ سڑکوں پہ لیکن یہ بدقسمتی اور بدبختی ہے کہ قوم کو ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔
یہ فلسفہ شاید کسی سیاست دان یا حکمران کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان عزم عالی شان ایک ٹرسٹ کی حیثیت رکھتا ہے یہ ایک امانت ہے۔ حضرت قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے گا۔ ان کے فرمان کے مطابق پارلیمان کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے دستور کی تشکیل و تخلیق کریں گے لیکن حالات و واقعات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایٹمی قوت سے لیس اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو بے بس کمزور اور لاچار کرنے سے قومی حاکمیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہو گا حالانکہ مسلمان تو پیدا ہی حکومت کرنے کے لئے ہوا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
جہانگیری بخاکِ ما سرشتند
امانت در جبینِ ما نوشتند
تحفہ خداوندی پاکستان میں شروع سے ہی اگر سیاسی احوال و کیفیات کا مطالعہ کیا جائے اور جمہوریت کے تقاضوں کو سمجھا جائے تو یہ نظرآتا ہے کہ 62 سالوں میں پاکستان میں جمہوریت کوئی فائدہ مند سیاسی نظام ثابت نہیں ہوئی جس میں قومی انتشار‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ افراتفری اور بے یقینی کی کیفیات ہمیشہ سے موجود رہی ہیں‘ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے کون سی جمہوریت کا اظہار ہوتا ہے اگر دور نہ جائیں تو 18 فروری 2008ء کے انتخابات کا ہی جائزہ لے لیں کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ پورا سال قومی مفاہمت کے لئے سرگرداں رہے بالآخر قوم کو سڑکوں پہ آنا پڑا۔ عدلیہ کی آزادی کا مسئلہ کون سا مسئلہ فیثا غورث تھا جو نہ حل ہو سکتا تھا لیکن قوم کو سربراہان سیاست و قیادت نے ذہنی اور نفسیاتی عذاب میں متبلا کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہان کا کمال حوصلہ‘ تدبر‘ استقلال اور استقامت تھی کہ وہ جگر کاری سے جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے حوالے سے صبر آزما اور کٹھن دور سے گزرتے رہے کیا۔ حکومتی فیصلے قومی مفاہمت سے طے نہیں ہو سکتے تھے؟ قوم کے افراد کتنے پریشان اور مضطرب ہوئے اور ایک دل شکن اور دردناک لمحوں سے دوچار رہے قصہ یہ ہے کہ اگر عدلیہ کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے آزاد کر دیا گیا جو بہت ہی ضروری تھا تو اب پنجاب حکومت کی بحالی کے راستے میں روڑے اٹکانے کا کیا جواز ہے؟
پنجاب حکومت کے 25 فروری 2009ء کے اقدامات کو ختم کر کے گورنر راج کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیے تھا تاکہ صوبہ پنجاب جو پاکستان کا دل ہے قومی استحکام و سالمیت اور تعمیر و ترقی کے لئے اپنا حصہ ادا کر سکے اور اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے تاکہ پوری قوم کو پھر دوبارہ سڑکوں پر آ کر پنجاب حکومت کی بحالی کا فیصلہ نہ کرنا پڑے۔ فیصلے حکومتی ایوانوں میں ہونے چاہیے نہ کہ سڑکوں پہ لیکن یہ بدقسمتی اور بدبختی ہے کہ قوم کو ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔
یہ فلسفہ شاید کسی سیاست دان یا حکمران کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان عزم عالی شان ایک ٹرسٹ کی حیثیت رکھتا ہے یہ ایک امانت ہے۔ حضرت قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے گا۔ ان کے فرمان کے مطابق پارلیمان کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے دستور کی تشکیل و تخلیق کریں گے لیکن حالات و واقعات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایٹمی قوت سے لیس اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو بے بس کمزور اور لاچار کرنے سے قومی حاکمیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہو گا حالانکہ مسلمان تو پیدا ہی حکومت کرنے کے لئے ہوا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
جہانگیری بخاکِ ما سرشتند
امانت در جبینِ ما نوشتند