مینارپاکستان کی بلندی جہاں اہل پاکستان کی عظمتوں اور رفعتوں کی نشانی ہے وہیں یہ اس تاریخی جلسے اور پھر اس کے نتیجے میں دنیا کے واحد نظریاتی ملک کے قیام کی یاد دلاتی ہے جو نہ صرف برصغیر بلکہ تمام مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز تھا۔ افسوس ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور عوام کش طرزحکمرانی سے بلندی اور رفعت کی نشانی جائے خودکشی بن گئی اوراس کے سن تعمیر سے اب تک یہاں چالیس سے زائد افراد نے کود کر اپنی جان دے دی۔ جن میں زیاد تر افراد نوجوان تھے۔ مینار پاکستان پر پینتس سال سے اپنے فرائض سرانجام دینے والے گارڈ ممتازعلی کا کہنا ہے کہ مینار کی تعمیرکے چھ ماہ بعد ہی پہلی خودکشی ہوگئی اور اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔ مینار کی بندش سے قبل یہ عالم بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک روز میں یہاں سے دو سے زائد افراد نے اپنی جان لی، پاکستان کی اس نشانی کو بدنامی سے بچانے کے لئے اسے عام آدمی کے لئے بند کردیا گیا۔ مینارپاکستان کو دیکھنے کے لئے اب بھی روزانہ سینکڑوں لوگ آتے ہیں اورجب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اس کے اوپرنہیں جا سکتے تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی پالسیاں تبدیل کرنے کے بجائے مینارکوبند کردیا جو سراسر زیادتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کو کسی جگہ سے شدید محبت ہو اور وہ اس سے مایوس ہوجائے تو پھر وہ خود کشی کے لئے اسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے۔ یوں حکومتوں سے مایوس لوگوں نے اپنی محبوب جگہ کو غموں کے مداوے کے لئے چن لیا۔ مینارکی بلندی بھی اپنے حکمرانوں سے گلہ کرتی ہے کہ وہ بھی ایسی پالیساں بنائیں کہ اس مینارکی طرح دنیا بھرمیں پاکستان کا نام بھی اونچا ہو۔