بلوچستان کی صورتحال الارمنگ: حکومت کب تک حقائق چھپائے گی: چیف جسٹس

Mar 23, 2012

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ‘ اغواءبرائے تاوان اور بلوچستان اسمبلی کے رکن بختیار ڈومکی کی اہلیہ اور بیٹی کے کراچی میں قتل کے مقدمہ میں چیف سیکرٹری بلوچستان کی صوبے میں امن و امان اور آئی جی سندھ کی قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی الارمنگ ہے‘ وہاں سارے تعلیمی ادارے تباہ اور بند ہوچکے ہیں‘ اساتذہ کو تحفظ حاصل نہیں‘ حکومت آخر کب تک حقائق چھپائے گی‘ اب تو ہماری اپنی پوزیشن متاثر ہورہی ہے‘ہم بے یارو مددگار نہیں حکم دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے گزشتہ تین سال میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ، گرفتاریوں کے بارے میں رپورٹ طلب کرلی‘ عدالت نے کہاکہ خفیہ ایجنسیوں نے صوبے میں امن و امان کے بارے میں جو رپورٹ دی ہے ان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی رپورٹ کے کون سے حصے پر عدالت کو بریف کرنا چاہتے ہیں ‘ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال واضح ہے‘ ٹارگٹ کلنگ اور اغواءبرائے تاوان کی وجوہات بارے بھی عدالت کو بھی آگاہ کیا جائے۔ دوران سماعت چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی بلوچستان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سمیت دیگر اعلیٰ حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں آخرکیا ہو رہا ہے۔گزشتہ روز بھی دو پولیس اہلکار مارے گئے ‘ اس پر چیف سیکرٹری نے کہاکہ اب صورتحال بہتری کی طرف جا رہی ہے ہم مطمئن ہیں کہ حالات بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ یہ بہتری آپ کی فائلوں میں ہو گی ہمیں تو پورے بلوچستان میں کہیں بہتری نظر نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الزام تراشی سیاسی پارٹیوں کا کام ہے ہم کسی پر الزام نہیں لگاتے لیکن صورتحال سے خود ہی ہر بات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے کہا کہ بلوچستان میں اب سفر کرنا بھی محفوظ نہیں رہا نہ تو ٹرینیں اور نہ ہی شاہراہیں سفر کیلئے محفوظ ہےں۔ چیف سیکرٹری نے کہاکہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے جگہ جگہ چوکیاں بنائی گئی ہیں پولیس موبائل بھی گشت کرتی ہیں ساری ذمہ داری ایف سی کو سونپ دی گئی ہے۔ سماعت 3اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں رپورٹ پیش کریں کہ گزشتہ تین سال میں بلوچستان میں کتنے افراد ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے؟ اس سلسلے میں کتنے گرفتاریاں ہوئیں؟ اساتذہ صوبے میں خدمات انجام دینے سے کیوں انکاری ہیں؟ لوکل باڈیز نظام کو فروغ دینے کیلئے بلوچستان حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے؟ اغواءبرائے تاوان اور لاشوں کے ملنے کے محرکات کیا ہیں؟ حساس ادارے کن نکات پر ان کیمرہ (بند کمرہ) بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔دی نیشن کے مطابق سپریم کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملے پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دیں اور اس بات کی نشاندہی کریں کہ کس علاقے میں امن و امان کی صورتحال بدتر ہے۔
مزیدخبریں