”نوائے وقت“ میرا میکہ

Mar 23, 2013

نوائے وقت کیلئے شاہ دین بلڈنگ کی سیڑھیاں میں نے پہلی بار 1965ءکی 6 ستمبر کو چڑھی تھیں۔ ماموں کے گھر سے مال روڈ تک دیکھتی آئی تھی کہ سڑکوں پر لوگ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے تھے اور آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ میں اپنے ابا جی کے کزن عبدالبشیر آذری صاحب کے ساتھ آئی تھی۔ اور ہم دونوں سیدھے مجید نظامی صاحب کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ چچا کو دیکھ کر نظامی صاحب اُٹھ کر چچا سے ملے تھے اور بڑے تپاک سے ملے تھے۔ چچا نے میری طرف اشارہ کر کے تعارف کرایا کہ یہ میری بھتیجی ہے اور اسے میں آپ کے پاس لے کر آیا ہوں۔ اسے اخبار میں لکھنے کا شوق ہے اور یہ لاہور میں رہ کر اپنی تعلیم بھی مکمل کرنا چاہتی ہے فی الحال میرے گھر یا ماموں کے گھر رہے گی۔
مجید نظامی صاحب نے مجھے بغور دیکھا۔ پھر چچا سے بھارتی حملے کا ذکر کرنے لگے اور مجھے کچھ لکھ کر دکھانے کو کہا۔ میں نے گڑھی شاہو سے مال روڈ تک لوگوں کی افراتفری کے بارے میں لکھ دیا۔ (انہوں نے اس وقت کاغذ اور پنسل اپنے پاس سے دیا تھا)۔ ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ اخبار میں اپنی تصویر نہیں چھاپیں گی۔ اپنے کام سے کام رکھیں گی فضول کہیں نہیں جائیں گی۔ (اس دوران چچا اور مجید نظامی صاحب) واگاہ پر بھارتی حملہ کے بارے میں خبریں لیتے رہے تبصرے کرتے رہے کمرے میں لوگ آتے جاتے رہے آدھ گھنٹہ بیٹھ کر ہم واپس آ گئے۔ میں نے جو سڑکوں کا احوال لکھا تھا مجید صاحب نے پڑھ لیا۔ اور کہا ایسی ہی تحریریں چاہیں۔ اور پھر طے یہ ہوا کہ میں ”جنگ“ کے فیصلہ تک واپس چلی جا¶ں اور پھر آ کر نوائے وقت جوائن کر لوں۔ میں دوسرے دن واپس ڈسکہ چلی گئی سترہ روزہ جنگ کے دنوں میں ڈسکہ کے تعلیمی ادارے سرحد سے آنے والے مہاجرین کے کیمپ بنا دیئے گئے تھے جن میں میرے بڑے بھائی آصف محمود اور میری امی اپنی خواتین کے ساتھ ان کے امدادی کام کر رہی تھیں میں بھی ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ خواتین کے وفد کے ساتھ میں سیالکوٹ چونڈہ بارڈر بھی دیکھ آئی اور وہاں کے حالات ساتھ ساتھ لکھتی چلی گئی۔ اور میں 20 ستمبر کو واپس نوائے وقت پہنچ گئی اور ڈسکہ اور چونڈہ اور بارڈر کے حالات کے بارے میں کام لکھ دیئے اور ان پر یہ بھی عرض کر دی کہ ماموں کا گھر گڑھی شاہو میں ہے میں اتنا سفر نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے کسی ہوسٹل کا پتہ بتا دیں کہ میں اپنی تعلیم بھی مکمل کر لوں اور لکھتی بھی جا¶ں۔ اس طرح میرا تعارف اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی پرنسپل مسز کاکا خیل صاحبہ سے کروا دیا گیا۔ انہوں نے کمال مہربانی کر کے دسمبر کی چھٹیوں کے بعد مجھے ہوسٹل میں جگہ دیدی۔
ہمارے اخبار میں ان دنوں فاروق صاحب فوٹوگرافر تھے اور ہاں مجید نظامی صاحب کے کمرے سے پہلا سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا وہاں دو تین میز اور کرسیاں تھیں۔ جہاں پر مجید نظامی کو ملنے آنے والے لوگ انتظار میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہیں ایک میز اور کرسی مجھے دیدی گئی اور کاغذ۔ باہر شخص ہوتا تھا میں آتی۔ اسے وہاں بیٹھ کر لکھ کر دیتی اور وہ نیوز روم میں پہنچا آتا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے ابا جی کے پیر بھائی اور آصف بھائی کے دوست ظہور عالم شہید صاحب وہاں ایڈیٹر تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے آواز دے کر پوچھا کرتے ”کاکی تیرا حال کیہ اے۔ اج کیتھے گئی سیں تے کیہ لکھ کے لیائی ایں۔
فوٹو گرافر کبھی ساتھ جاتا کیونکہ نوائے وقت کی پالیسی اس وقت یہ تھی کہ خواتین کی تصاویر شائع نہیں ہونگیں۔ جب کبھی میں گائڈ ہا¶س یا زنانہ تعلیمی اداروں میں جاتی خواتین کی سرگرمیوں کی رپورٹ لینے اور میں اپنا تعارف کرواتی تو وہ سب کہتیں۔ شکر ہے نوائے وقت نے کوئی اپنی رپورٹر تو رکھی مگر فائدہ کچھ نہیں وہاں ہماری سرگرمیوں کی تصاویر نہیں چھپتیں۔ پھر میں نے تعلیمی اداروں کی پرنسپلز کے انٹرویو کئے۔ اپوا وغیرہ کی سرگرمیاں رپورٹ کیں تو وہ خود ہی پھر مجید نظامی صاحب سے کہہ دیتیں۔ ذرا ہماری تصویروں پر بھی توجہ دیجئے۔ دیکھئے باقی اخبار ہماری کتنی کتنی تصویریں چھاپتے ہیں۔ تو انہیں جواب ملتا۔ ہم تصویر کے لئے نہیں تحریر کے لئے اخبار چھاپتے ہیں۔ آپ دیکھئے ہمارے ہاں کی تحریریں آپ کا مقصد پورا کر رہی ہیں ناں؟میں پہلے اخبار میں تو افسانے لکھتی رہی تھی ماہ نو وغیرہ میں بھی چھپتے تھے اس لئے میں امروز کی اپنی ساتھیوں کے پاس چلی جاتی۔ وہاں رخشندہ غلام علی تھی پھر ساتھ رفعت مرزا بھی آ گئی۔ نوائے وقت کا سٹاف بہت اچھا تھا ہمایوں ادیب تھے۔ ارشد صاحب تھے جو ایڈیٹوریل لکھتے تھے۔ جب کبھی مجید نظامی کو ملنے والے لوگ زیادہ آ جاتے تو میرا کمرہ ان کی انتظار گاہ بنتا۔ تو میں ارشد صاحب کے کمرے میں چلی جاتی۔ اور ارشد صاحب کی تحریروں کے پروف بھی پڑھ آتی اور وہ خوش ہوتے۔ یوں بھی ہوتا کہ سٹاف کی کسی بچی کو کسی ادارے میں داخل ہونا ہوتا تو شہید صاحب اپنے کمرے سے ہانک لگاتے۔ بہن، کاکی رفعت ایہہ ساڈا یار آیا اے ایدی دھی نے فلاں ادارے وچ داخل ہونا اے۔ انہاں دا کم تے کر آ۔ ہمارے وقت میں مشرق میں فریدہ تاج تھیں، کوہستان میں سلمیٰ جبین۔ یہ سب اپنے فوٹو گرافروں کے ساتھ انہی کی موٹر بائیک پر بیٹھ کر فنکشن پر آتی جاتیں۔ امروز میں فرزانہ ممتاز بھی آ گئیں وہاں خواتین زیادہ تھیں۔ ہمارا اچھا وقت گزرا۔ میں نے زندگی کے بہت ہی اچھے سال نوائے وقت میں گزارے۔ مجید نظامی صاحب نے ہمیشہ بڑی شفقت سے سمجھایا۔ بہت سی اونچ نیچ سمجھائی نوائے وقت میں مجید نظامی، ظہور عالم شہید، ارشد صاحب ہمایوں ادیب صاحب اور میرے ساتھی رپورٹروں نے مجھے ہمیشہ بہت احترام دیا۔ میرے کولیگ محمود شام تھے عاشق علی فرخ یہ مجھ سے اپنے گھروں کے مسئلے بھی ڈسکس کر لیتے تھے۔ بلکہ مجھے ہوسٹل کے لئے کچھ پیسے جلدی مل جاتے تھے کہ میں ہوسٹل کا بل ادا کر دوں۔ میں ساتھ ساتھ دوسرے رسالوں میں لکھ لیتی تھی اور ان کا کام بھی کر دیتی تھی جہاں سے پیسے مل جاتے تھے۔ اس لئے وہ مجھ سے پیسے ادھار بھی لے لیتے تھے۔ عطاءالحق قاسمی اور میں ایک ہی کمرے میں ہوتے تھے۔ پھر ہمارا دفتر شاہ دین بلڈنگ سے دوسری عمارت میں چلا گیا۔ دفتر جانا، وہاں کا کام دیکھنا میری عادت بن گئی تھی۔ اکثر یوں کہتی نوائے وقت میں اتنی اپنائیت ملی کہ میں اسے اپنا میکہ کہتی ہوں۔ مجھے جب بھی اپنے اور پنجابی افسانوں سے فرصت ملے۔ میں نوائے وقت میں لکھ لیتی ہوں۔ مگر دیکھتی ہوں کہ اب وہاں رپورٹر کی تصویر بھی چھپتی ہے۔ میری پنجابی کی کتاب ”اک اوپری کڑی“ کا فنکشن ہوا تھا۔ میرے اخبار میں خبر بھی ننھی سی لگی تھی باقی اخباروں میں باقاعدہ باتصویر شائع ہوا تھا۔ اب یہاں تصویریں ہو گئی ہیں۔ میں اپنے کالم اور اپنے صفحے کی پروف ریڈنگ خود کر کے آتی تھی۔ مگر اب دیکھ رہی ہوں کہ نوائے وقت میں پروف کی کئی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں ان پر اپنی عادت کے مطابق نشان لگاتی رہتی ہوں اور سوچتی ہوں زمانہ بدل گیا ہے۔ ہمارا زمانہ صرف اخبار کا زمانہ تھا اب ٹی وی کا زمانہ ہے اب شکلوں پر میک اپ ہوتا ہے اور اینکر بننے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ پھر تحریر کی طرف توجہ کون دے؟

مزیدخبریں