1945ء میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ انڈیا کے مسلمان کلیتہً پاکستان کیلئے قربانی دینے کو تیار ہیں۔مثلاً 1945ء میں راقم مدراس میں پٹرولیم ٹیکنیکل انجینئرنگ سکول میں کورس کر رہا تھا محلہ ٹرپلی کین کی جامع مسجد میں ہم لوگ نمازِ جمعہ ادا کرکے باہر نکل رہے تھے۔دیکھا تو نوجوانوں کا ایک ہجوم پر جوش نعرہ لگارہاتھا۔
دے دیں گے اپنی جان
لے کے رہیں گے پاکستان
راقم نے ایک جوشیلے نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تمہارا مدراس تو قائد اعظم کے پاکستان میں شامل نہیں ہو گا۔ تو پھر آپ کِس لیے نعرے لگا رہے ہیں۔ تو اُس نے کہا کہ فِکر نہیں صاحب پاکستان بننے پر کچھ مسلمان توہندو کی غلامی اور ظلم سے بچ جائینگے۔ بہر حال مسلمان عوام کی طرف سے قائد اعظم کو مکمل اطمینان تھا کہ مسلمان عوام پاکستان کے حصول میں انکا پورا پورا ساتھ دیں گے۔ لیکن انڈین آ رمی کی طرف سے آپ کو تردد تھا۔
واضح رہے کہ جنگ عظیم 1914ء سے 1918ء تک جب قائد اعظم سنٹرل اسمبلی کے ممبر تھے تو انگریز حکومت نے War Fund اور بھرتی کیلئے کانفرس بلائی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ انگریزی حکومت سے قبل انڈیا میں مسلمانوں کی فوجوں میں سکھوں اور مرہٹوں کی فوجوں میں دیسی لوگ ہی جنرل اورکمانڈر انچیف ہوتے تھے۔ آپ انگریزی حکومت میں دیسی لوگوں کو بطور Gun Fodderبھرتی کرتے ہیں۔ لیکن ان کو کمانڈر بننے کیلئے اعتماد نہیں دیتے چنانچہ انڈین آرمی میں دیسی فوج کے جوان زیادہ سے زیادہ وائسرائے کمشن صوبیدار میجر تک ترقی پا سکتے تھے لیکن اس کے اوپرکے کنگ کمشن میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھی دیسی سپاہی کو مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی دوران حکومت ِ برطانیہ نے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ کواحکام بھیجے کہ جنگ عظیم کے لئے برصغیر کے لوگوں کی پوری امداد و ہمدردی حاصل کی جائے ‘چناچہ وائسرائے نے دہلی میں ہندوستانی رہنمائوں کیWar کانفرنس بلائی ‘ جس میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ بھی شامل تھے ‘ برصغیر کے لیڈروں میں قائداعظم ؒ ہی نے اس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میںبیان کیا کہ جب تک دیسی افراد پر پورا اعتماد نہ کیا جائے اور دیسی افراد کے لئے مسلّح افوا ج میںکنگ کمیشنڈ رینکس نہ کھولے جائیں اس وقت تک برصغیر کے لوگوں سے جنگی امداد کی توقع عبث ہے۔ اس کے بعد بمبئی کی صو بائی وار کانفرنس میں بھی چوٹی کے رہنما شامل ہوئے اور مسٹر تلک جیسے قد کاٹھ کے ہندو لیڈروں نے بھی انگریزی فوج میں بھرتی کے حق میں تقریریں کیں‘ مگر اس بار بھی صرف قائداعظمؒ کو یہ کہنے کی توفیق ہوئی کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں خالصتاًکرائے کے فوجیوں کے بجائے ایک قومی فوج یعنی شہریوں کی فوج ہو جسے قائدا عظم ؒنے Citizens Armyکا نام دیا‘ قائم کی جائے ‘ اور اگر انگریز یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ فوج میں بھرتی ہوں ‘ تو پھر تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ انگریزی حکومت میں بااعتماد اور برابر حقوق رکھنے والے شہری ہیں یعنی وہ صرف بھاڑے کے فوجی ہی نہیں‘بلکہ ایک باوقار قومی فوج کمان کرنے کے بھی اہل سمجھے جاتے ہیںجب حکومت برطانیہ نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا‘ تو اسی شام بمبئی کے شہریوں نے قائداعظم ؒ کے زیر ِ صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں قائداعظم ؒ نے باقائدہ ریزولیشن پیش کیا اور کانگریس کی چلائی ہوئی تحریک ہوم رول کے مطالبے کے علاوہ مسلّح افواج کے بارے میں مندرجہ ذیل دو مطالبات برطانوی حکومت کو پیش کئے جن میںایک یہ کہ مسلّح افواج کے کنگ کمیشن رینک فوری طور پردیسی افراد کیلئے کھول دئے جائیں۔ اوردوسرا ملک میں فوری طور پر فوجی کالج کھولے جائیں اورا ن میں دیسی افراد کو داخلہ دیا جائے ۔
ساتھ ہی ساتھ انڈین لیجسلیٹو اسمبلی میں قائداعظم ؒ شہری افواج کے قیام اورکنگ کمیشنڈ آفیسر کے طور پر دیسی افراد کی بھرتی پر زور دیتے رہے ‘چنانچہ اسی دباؤ کی وجہ سے حکومت ِہند نے جنگ ختم ہونے کے بعد انڈین سینڈھرسٹ کمیٹی Indian Sandhrust Commitee قائم کی‘ جس کا چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سر اینڈ ریوسکین چیف آف جنرل سٹاف کو مقرر کیا اور قائداعظمؒ کو خاص طور پراس کمیٹی کا ممبر چنا گیا۔کمیٹی کے ذمّے یہ کام تھا کہ ایک تو ہندوستانی فوج میں دیسی افراد کو کنگ کمیشنڈ افسر مقرر کرنے اور اسے قومی ہندوستانی فوج بنانے کے بارے میں سفارشات پیش کرے۔دوسرا ہندوستان میں کنگ کمیشنڈ افسر تیار کرنے کیلئے Sand Hurst کی طرح کا فوجی کالج قائم کرنے کیلئے اقدامات تجویز کرے۔
ضروری ابتدائی کاروائی کے بعدقائداعظم ؒ کی قیادت میں ایک سب کمیٹی کویورپ بھیجا گیا وہاں قائداعظمؒ نے مختلف یورپی ممالک کے فوجی کالجوں کا معائنہ کیا پھر ہندوستان میںفوجی کالج قائم کرنے کے بارے میں اپنی سفارشات حکومتِ ہند کو دیں ۔ بالآخر اسی جناح کمیٹی کی سفارشات کی بناء پر دیسی افراد کو کنگ کمیشنڈ افسر تیار کرنے کے لئے ڈیرہ وون میں انڈین ملٹری اکیڈمی قائم کی گئی ‘ اورڈیرہ وون میں اکیڈمی بنانے تک ہندوستانی حاضر سروس وائسرائے کمیشن افسروں میں جمعدار ۔ صوبیدار وغیرہ کے بیٹوں کو یونٹ فنڈ سے انگلینڈ میں Sand Hurst اورWoolich وغیرہ کے فوجی سکولوں کالجوں میں بھیجا جانے لگا ۔ ہندوستان میں جمعداروں اور صوبیداروں کے بیٹوں کو فوجی افسر بنانے کے لئے سرائے عالمگیر اورراجپوتانہ وغیرہ میں فوجی تعلیم و تربیت کیلئے کالج کھولے گئے۔ چنانچہ اس طرح انڈین آرمی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی کو کنگ کمیشنڈ رینک محض قائداعظم ؒ کی انتھک کوششوں سے ملنے شروع ہوئے۔کانگریس نے جناح کی کمیٹی پر اعتماد نہیں کیااور یہ بیان دیا کہ جناح کمیٹی محض EYE WASHہے لیکن دوسری طرف انگریز یہ ثابت کرنے لگے کہ انگریزی حکومت سچے دل سے جناح کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا چاہتی ہے بلکہ کچھ دیسی فوجیوں کو انگریز حکومت سے خاندانی وفاداری کی بناء پرکنگ کمیشن دینے کی منظوری بھی دے دی۔ سب سے پہلے چکوال کے رہنے والے جمعدار صوبیدار محمد اکبرخان کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدہ پر فائز کرکے سپلائی ٹرانسپورٹ رجمنٹ میں متعین کر دیا۔ یہ محمد اکبر خان GHQانڈیا میں راقم کی رجمنٹ میں کرنل کے عہدہ پر فائز تھے۔جسکے بعد میرٹھ میں بریگیڈئیر رینک میں سب ایریا کمانڈر بنے۔ پاکستان بننے کے بعد میجر جنرل کے رینک پر تعینات ہوئے۔
آزادئ ہند کے مذاکرات کے دوران کانگریس اور انگریز دونوں ہی مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام رکھنے کے لئے حیلے بہانے بنا رہے تھے۔ پہلے تو بظاہر ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن پر زور دیا جاتا رہا جس میں کرنسی ‘امور خارجہ اور ڈیفنس کے معاملات مرکزی حکومت کے پاس رکھنے کی تجویز تھی‘ لیکن جب قائداعظم ؒ پاکستان سے کم کسی شرط پر راضی نہ ہوئے ‘ تو بڑی چالاکی اور عیّاری سے ماؤنٹ بیٹن نے سینئر انگریز جرنیلوں کے ذریعے قائداعظم ؒ کو ایجوکیٹ کرنے کی کوشش شروع کردی کہ پاکستان فنّی اورمالی لحاظ سے اپنی علیحدہ مسلّح افواج رکھنے کا متحمل نہیں ہوگا ‘ اس لئے آزا د ملک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ مشترکہ مسلّح افواج رکھنے پر راضی ہوجائے۔ جسکا سپریم کمانڈر ایک انگریز جنرل ہو گا۔ انفرادی طورپر سینئر انگریز افسر ہم نوجوان مسلمان افسر وں کو سمجھاتے کہ دو سو سال کی محنت ِشاقّہ سے انہوں نے انڈین آرمی کو دنیا کی مضبوط ترین فوج بنایا ہے اور اب اس کی تقسیم انڈین آرمی کو تباہ کردے گی‘ اور اسکے علاوہ پاکستان چھوٹا سا ملک ہونے کی وجہ سے Sizeableفوج نہیں رکھ سکے گا‘ اس لئے مسلمان افسروں کو آرمی کے بٹوارہ ہوجانے پر ترقیاںنہیں ملیں گی‘ وائسرئے کے سٹاف میں انگریز جرنیل نے قائداعظم کو بتایا کہ سینئر مسلمان افسر بھی انڈین آرمی کی تقسیم کے حق میں نہیں ہیں۔ دریں اثنا ء سیاسی سطح پر مسلم لیگ کوعبوری حکومت میں شامل کر لیا گیا۔ اور مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری نوابزادہ لیاقت علی خان کو عبوری حکومت میں فاننس کی وزارت دی گئی۔ چنانچہ قائد اعظم نے فیصلہ کیا کہ دہلی کے قرب وجوار میں سینئر آرمی افسروں کی مسلم لیگ ہائی کمان میں نوابزادہ لیاقت علی خان سے ملاقات کر ا کے اندازہ لگایا جائے کہ سینئر مسلمان آرمی افسروں کے پاکستان کے بارے میں خیالات کیا ہیں۔ پاکستان بننے کے خلاف انگریز اور ہندو نے مل کر جتنی بھی سازشیں کیں ‘میر ے خیال میں یہ جوائنٹ فورسز والی تجویز سب سے خطرناک تھی ۔
مسلّح افواج کے بارے میں انگریز اور ہندوئوں کے اس مشترکہ پروپیگینڈے کا جواب دینے کیلئے جناب الطاف حسین صاحب ایڈیٹر ’’ڈان‘‘ کی تجویز پرراقم نے ’’ڈان‘‘ میں ایک مستقل کالم ’’ڈان‘‘ ملٹری کا ر سپانڈنٹ ‘‘ کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔ اس کالم نے انگریزوں کا یہ فریب توڑنے میں کامیاب رول ادا کیا کہ انڈین آرمی ناقابل ِ تقسیم جسدِ واحد ہے۔
اوائل 1947ء میں جب کہ برصغیر کی دستوری گُتھی کسی صورت نہیں سلجھ رہی تھی ، 20فروری 1947ء کو میجر اٹیلی برطانوی وزیر اعظم نے اپنا مشہور یک طرفہ انخلاء کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان میںکہا گیا کہ اگر کانگرس اور مسلم لیگ کا آپس میںکوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو انگریزیکم جون 1948ء کو کسی قسم کی سنٹرل اتھارٹی‘اور بعض صورتوں میں موجودہ صوبائی حکومتوںکو یا کسی اور قسم کی اکائیوں کو یک طرفہ طور پر حکومت حوالے کرکے ازخود برصغیر سے رخصت ہوجائیں گے ۔اس سے قبل جب ہندو کانگریس نے 6ستمبر 1946ء کو عبوری حکومت بنائی تھی‘ تو ان کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ انگریز تمام اختیارات اسی عبوری حکومت کے حوالے کر کے رخصت ہوجائیں توکانگریس خود ہی سب فرقوں میں صلح صفائی سے اور ضرورت پڑنے پرطاقت کے ذریعے فیصلہ کرلے گی۔
اس یکطرفہ انخلاء کی تجویز میں کانگریس کو اپنے مطالبے کی تکمیل صاف نظر آرہی تھی‘ چنانچہ اس نے سارے برصغیر پر قبضہ جمانے کی خفیہ تجویزیں بنانا شروع کردیں۔ انہی میں سے ایک انتہائی خفیہ تجویز کرنل کول نے جی ایچ کیو کے ہندو افسروں سے ملکر بنائی‘ تجویز یہ تھی کہ یکطرفہ انخلاء کے ساتھ ہی پورے ملک میں مارشل لاء لگادیاجائے ‘ اور یہ کہ پنڈت نہرو نے اس مارشل لاء کاسربراہ بننا منظور کرلیا ہے۔ پنڈت کول پنڈت نہرو کے عزیز ہونے کی وجہ سے ان کے کافی قریب تھے ‘اس لئے یہ خبر قابل قبول معلوم ہوتی تھی ‘ واضح رہے کے کرنل کول اور محمد اکبر خان دونوں ہی راقم کی سپلائی ٹرانسپورٹ رجمنٹ میں افسر تھے۔ بعد میں آزادی ملنے پر پنڈت نہرو نے اِسی کرنل کول کو سپلائی رجمنٹ کا افسر ہونے کے باجود بھارتی فوج کا چیف آف جنرل سٹاف مقرر کردیا‘ اور آخر میں اسی کے زیر کمان بھارتی فوج کو نیفامیں چین کے مقابلے میں ذلّت آمیز شکست ہوئی ۔ (جاری)